المیہ تمثیل کے آخری ایکٹ کا پہلا منظر

تحریر: وجاہت مسعود۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ

انسانی تاریخ کی تمثیل دو دھاروں کی کشمکش سے عبارت ہے، طاقت اور محبت۔ طاقت نے وسائل پر قبضے ، فیصلہ سازی کے اختیار، اقتدار کے تام جھام، اونچ نیچ کی دیواروں، تفرقے، نفرت، تقلید اور جہالت کے ہتھیار ایجاد کئے ہیں۔ محبت نے پیداوار، علم، تخلیق، تعمیر، ہمدردی، احساس ، جذبوں کی سانجھ اور ذوق جمالیات کی مدد سے طاقت کی آندھیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ذہن انسانی کی دو اہم ترین ایجادات زبان، اور انصاف ہیں جن کے ذریعے دریافت، ایجاد اور تدبیر کے سہارے بستیاں آباد کی گئی ہیں۔ اس صبر طلب تمثیل کا پہلا ٹھکانہ جنگل تھا جہاں طاقت کا قانون رائج تھا۔ نامعلوم کا خوف اور بقا کے لئے درکار وسائل کی قلت سے جنم لینے والی جبلت کا راج تھا۔ اس سفر میں دوسرا پڑاؤ چھاؤنی تھی جہاں جسمانی قوت کو فیصلہ کن کردار حاصل تھا۔ اس سفر میں تیسرا قیام شہر تھا۔ عربی اصطلاح تمدن مدنیت یعنی شہر سے ماخوذ ہے۔ شہر اجتماعی فراست سے طے پانے والے اصولوں کے مطابق رہن سہن کے بندوبست کا نام ہے۔ اس تمثیل میں ڈرامائی تضاد کے دو ماخذ ہیں۔ پہلا یہ کہ ذہن انسانی میں ابھی تک جنگل کی نفسیات کے منطقے موجود ہیں۔ دوسرا عنصر شہر میں ناجائز مفاد کی موجودگی ہے جو طاقت کے بل پر تمدن کی ہموار ترقی میں مداخلت کرتا ہے۔ جمہوری اقدار اور بندوبست کی تشکیل ابھی ابتدائی شکل میں ہے۔ یونانی فکر و فلسفہ کی روایت محض اڑھائی ہزار برس پرانی ہے۔ میگناکارٹا پر ایک ہزاریہ بھی نہیں گزرا۔ نشاۃ ثانیہ چھ صدی پرانا قصہ ہے۔ مذہب اور سیاست میں علیحدگی کا معاہدہ ویسٹ فیلیا 1648 ء میں طے پایا تھا۔ برطانیہ میں آئینی بادشاہت کی بنیاد 1688 ء میں رکھی گئی۔ اٹھارہویں صدی میں روشن خیالی کی تحریک 1789 ء میں انقلاب فرانس اور امریکی دستور کے نفاذ پر منتج ہوئی۔ قومی ریاست، ہمہ گیر نظریاتی سیاست اور غلامی کا خاتمہ 19 ویں صدی کی دین ہیں۔ بیسویں صدی عورت اور مرد میں امتیاز سے لڑتے گزر گئی۔ نو آبادیاتی نظام کے رسمی خاتمے پر ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری۔ مذہبی تعصب ، نسل پرستی اور ذات پات کی قباحتیں ابھی باقی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد قومی آزادی پانے والی ریاستیں مقامی مقتدر قوتوں کے شکنجے میں ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے سے باندھی گئی توقعات کو عالمی سرمائے نے مقبولیت پسند سیاست کی مدد سے یرغمالی بنا لیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں نے مکمل تباہی کے خوف کا جو توازن قائم کیا، اس سے تیسری عالمی جنگ تو نہیں ہوئی لیکن ایک دن ایسا نہیں گزرا جب کرہ ارض پر کوئی خوفناک جنگ نہ ہو رہی ہو۔چرچل نے مارچ 1946 ء میں یورپ کے آر پار جس آہنی پردے کی نشاندہی کی تھی، وہ حلقہ در حلقہ پھیل گیا ہے بلکہ جدید ذرائع ابلاغ میں بھی نفوذ کر گیاہے۔ آئزن آور نے جسMilitary–industrial complexسے خبردار کیا تھا ،سرمائے اور ہتھیار کا وہ گٹھ جوڑ آج دنیا بھر میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ جنگ اور امن کا بنیادی تضاد کیسے دور ہو جب ترقی یافتہ ممالک اسلحے کی فروخت سے پھل پھول رہے ہیں اور غریب ملکوں کی مقامی اشرافیہ کے مالی اور سیاسی مفادات جدید اسلحہ خریدنے سے وابستہ ہیں۔ جمہور یت کرہ ارض کے چند جزیروں تک محدودہے اور انسانیت کا بڑاحصہ ناجائزمفادات کا ا سیر ہے۔

ایک گرفتاری سے جڑی کہانیاں

 

حالیہ صدیوں میں تاریخ کا اہم ترین سبق یہ ہے کہ جہاں جمہوریت اپنے قانونی ، انتظامی اور ثقافتی زاویوں کے ساتھ موجود نہ ہو، وہاں فیصلہ کن اختیار فوج کے پاس ہوتا ہے۔ یورپ میں زارروس ہو یا وسطی یورپ کی آسٹرو ہنگیرین سلطنت، مشرق میں مغل ہوں یا چینی شہنشاہیت، سلطنت عثمانیہ ہو یا اشتراکی آمریت، جہاں عوام حکمران نہ ہوں ، وہاں بندوق فیصلہ کرتی ہے۔ بندوق کی حکمرانی ناگزیر طور پر نااہلی ، بدعنوانی ،معاشی بدحالی اور تمدنی انحطاط پر منتج ہوتی ہے۔ جدید ریاست میں فوج کا جائز کردار مادر وطن کا دفاع ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دفاع کی اصطلاح میں جارحیت کا امکان پوشیدہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ فوج اور جنگ کا گردشی کھیل جاری رہتا ہے۔ جمہوریت کی عدم موجودگی میں فوج فیصلہ کن کردار اختیار کر لیتی ہے۔ ان حالات میں فوج کو ملکی بندوبست میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بھی مدنظر رکھنا ہوتی ہیں۔ چنانچہ ناگزیر طور پر فوج میں ایک بالادست طبقہ نمودار ہو جاتا ہے۔ اسے سلطنت عثمانیہ میں ینی چری (Janissary)کہا جائے یا سوویت یونین میں کے جی بی۔ایران میں پاسداران انقلاب کہا جائے یا اسرائیل میں موساد۔ فوج کے اس مراعات یافتہ گروہ کا پیشہ ورانہ فوج سے تضاد ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں نوآبادیاتی حکمرانوں سے تین قوتیں ورثے میں ملی تھیں۔ تحریک آزادی سے قطعی لاتعلق لیکن طاقتور فوج ، تربیت یافتہ بیوروکریسی اور غیر ملکی حکمرانوں کی پروردہ سیاسی اشرافیہ جو جدید جمہوری حرکیات سے نابلد تھی۔ 11 فیصد شرح خواندگی رکھنے والا ملک سیاسی طور پر پسماندہ تھا چنانچہ اس پر فوج ،انتظامیہ ، عدلیہ اور پیوستہ سیاسی مفادات رکھنے والے غیر جمہوری سیاسی ٹولے نے قبضہ کر لیا۔ جدید دنیا میں منفرد جغرافیائی خدوخال رکھنے والا پاکستان پچیس برس تک مشرقی پاکستان کی بہتر تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور سے بہرہ مند اکثریت سے الجھتا رہا ۔ بالآخر ملک دولخت ہو گیا۔ باقی ماندہ پاکستان نے جمہوری راستہ اپنانے کی بجائے غیر جمہوری نمونے کو ترجیح دی۔ عالمی قوتوں کی دریوزہ گری کی۔ پیداواری معیشت کی بجائے ملک کو گروی رکھ دیا۔ اب معاشی بدحالی سے نجات کا کوئی فوری راستہ نظر نہیں آتا۔ ریاست کی عمل داری مخدوش ہے اور جمہوری روایت سے بے گانہ عناصر اپنے میعادی مفادات کے لیے آئے دن نئی سازش کا جال بُنتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں انہیں ایک المیہ تمثیل کے آخری ایکٹ کا پہلا منظر سمجھنا چاہیے۔ کامیاب اور ناکام بغاوتوں کی طویل تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ عسکری نظم و ضبط کی فصیل میں رخنے کی خبر کوچہ و بازار تک پہنچ گئی ہے۔ اس کھیل کا قانونی نتیجہ کچھ بھی ہو ، سیاست ،معیشت اور ملکی وقار میں بہتری کا کوئی فوری امکان نظر نہیں آتا ۔ وجہ یہ ہے کہ فیصلہ سازوں، رائے سازوں اور عوام الناس میں جمہوری بندوبست پر اتفاق رائے موجود نہیں۔

Check Also
Close
Back to top button