آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت کی سیاست!

تحریر: انصار عباسی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ

موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے چند ہفتے قبل سے تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران جن میں چند سابق جنرلز بھی شامل تھے اور کچھ صحافی بھی ، یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ جنرل عاصم آرمی چیف بننے کی دوڑ میں اس لیے شامل نہیں کیوں کہ اُن کی بحیثیت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرمنٹ اُس وقت کے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ یعنی 29نومبر 2022 سے چند روز قبل ہو جائے گی۔ایک سینئر صحافی اور مشہور اینکر نے اس بارے میں ٹویٹ کیا تو میں نے اُس کے جواب میں لکھا کہ یہ بات درست نہیں کیوں کہ کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اُسی وقت غیر متعلقہ ہو جاتی ہے جب وزیراعظم اُسے فل جنرل یعنی فور اسٹار کیلئے ترقی کی منظوری دے دیتے ہیں۔ پہلے دو لیفٹیننٹ جنرلز کو فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی جاتی ہے اور پھر اُن میں سے ایک کو آرمی چیف اور دوسرے کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جاتا ہے۔ بحیثیت لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ 26 نومبر کو ہو رہی تھی جبکہ اُس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے فوج کی دونوں اعلیٰ ترین تعیناتیوں کیلئے پینل میں موجود دونوں سینئر ترین افسران کو چند دن پہلے ہی ترقی دینے کی منظوری دے دی۔ اُس دوران چونکہ میں اس تعیناتی کے متعلق مختلف ذرائع کے ساتھ رابطے میں تھا تاکہ میں ایکسکلوسِو خبر دے سکوں اس لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بات ہوتی تھی۔ وزیراعظم سے یکم نومبر کو بات ہوئی تو اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے فیصلے میں ابھی کافی وقت ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ 20 نومبر کے آس پاس یہ تعیناتیاں ہوں گی کیوں کہ اٹھارہ نومبر کو ایک لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ ہونی تھی جس کے بعد عاصم منیر سنیارٹی میں سب سے اوپر آگئے۔ اُس دوران میں نے ان تعیناتیوں کے حوالے سے مختلف خبریں دیں، جن میں ایک طرف یہ خبر تھی کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف یہ فیصلہ کرچکے کہ اس بار تعیناتیوں کیلئے سنیارٹی کے اصول کو ہی ترجیح دی جائے گی، یعنی سینئر ترین کو ہی آرمی چیف بنایا جائے گا۔ اُس دوران میں نے جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع کے حوالے سے یہ بھی لکھا کہ جی ایچ کیو جس دن چھ لیفٹیننٹ جنرلوں کا پینل بھیجے گا تو اُس میں وہ چھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل شامل ہوں گے جو اُس دن تک سروس میں ہوں گے اور کسی سینئر کا نام نہیں نکالا جائے گا۔ کئی روز قبل میں نے یہ بھی خبر دی کہ چھ جرنیلوں جن کے ناموں پر فوج کی اہم تعیناتیوں کیلئے غور کیا جائے گا اُس میں سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم کا ہوسکتا ہے۔ 21 یا 22 نومبر کو جی ایچ کیو کی طرف سے بڑی رازداری کے ساتھ وزیراعظم کی منظوری کیلئے چھ نام بھجوا دیے گئے جس کی سب سے پہلے خبر میں نے جیو نیوز میں بریک کی اور چھ نام جن میں جنرل عاصم منیر کا نام سرفہرست تھا اُس بارے میں جیو میں ایکسکلوسو خبر دی۔ میری خبر کے چلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد اُس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب نے میری خبر کی تردید کرتے ہوے کہا کہ ابھی تک وزیراعظم ہائوس کو کوئی ایسا پینل موصول نہیں ہوا۔ ان دونوں حضرات نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو ان اہم ترین تعیناتیوں کے حوالے سے قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے۔ میری خبر پکی تھی لیکن نجانے کیوں خواجہ آصف اور مریم اورنگزیب نے ایسا کیا۔ کوئی آدھے پون گھنٹے کے بعد انہی وزراء اور حکومت کی طرف سے میری خبر کی تصدیق ہوگئی اور اعلان کیا گیا کہ چھ نام جن میں جنرل عاصم کا نام سب سے اوپر تھا وزیراعظم آفس کو موصول ہوگئے۔ اس دوران جیسے میں نے کہا کہ میں حکومت، ن لیگ اور فوج سے متعلقہ اعلیٰ ترین ذرائع سے رابطے میں تھا ،میں نے یہ محسوس کیا کہ اُس وقت کوئی ایسا فرد یا افراد موجود تھے جو فوج اور حکومت کے درمیان آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کر رہے تھے۔ میں جب تینوں فریقین سے بات کرتا تھا تو مجھے کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا تھا لیکن ان فریقین کو ایک دوسرے کے حوالے سے جو بتایا جاتا تھا اور جو کہا جاتا تھا اُس کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن جو عملاً ہوا وہ اُسی طرح سے ہوا اور ہوتا گیا جس بارے میں پہلے خبریں آ چکی تھیں۔ اس سارے عمل کو قریب سے دیکھتے ہوئے میں اس نتیجےپر پہنچا کہ ایسے معاملات میں اگر متعلقہ افراد ایک دوسرے سے ڈائریکٹ بات کر لیں توبہت سی غلط فہمیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ بات میں خواجہ آصف اورا سپیکر پنجاب اسمبلی کے درمیان ہونے والے مباحثے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ یہ دونوں رہنما ایک ساتھ جنرل باجوہ کو ملتے رہے لیکن دونوں جنرل باجوہ کے حوالے سے جو کہہ رہے ہیں وہ ایک دوسرے سےبالکل مختلف ہے۔ ایسے میں جو بات شہباز شریف اور نواز شریف تک پہنچ رہی ہو گی وہ یقیناً پریشان کن ہی ہو گی اور کچھ ایسی ان دونوں بھائیوں کی اُس وقت حالت تھی۔

Check Also
Close
Back to top button