حکومت کو عمران سے مذاکرات میں فائدے کی بجائے نقصان کا خطرہ

مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے مابین مجوزہ مذاکرات آغاز سے پہلے ہی تنازعے کا شکار ہو گئے ہیں جس کی بنیادی وجہ نون لیگی رہنماؤں خواجہ محمد آصف اور احسن اقبال کے بیانات ہیں جن میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان پہلے 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگیں اور پھر مذاکرات کی بات کریں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت حکومت کو مذاکرات کا نقصان اور عمران خان کو فائدہ ہے لہٰذا نون لیگی قیادت کی جانب سے متنازعہ بیانات آنے شروع ہو گئے ہیں جن کا بنیادی مقصد مجوزہ مذاکرات کو تارپیڈو کرنا ہے۔

یاد رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا سنائے جانے کے خدشے کے پیش نظر بانی پی ٹی ائی کے ساتھیوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے عمران نے محمود اچکزئی کو حکومت سے رابطوں کا اختیار دیا تھا لیکن بانی پی ٹی ائی کے بار بار بدلتے ہوئے موقف کے باعث ان مذاکرات کا اغاز نہیں ہو سکا تھا۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق ان کی جماعت کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کا حکومت کے خلاف موقف واضح اور جارحانہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں ان کا امیج خراب ہو گا۔ عمران یہ بھی سمجھتے تھے کہ انہیں حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں جو کہ اصل فیصلہ ساز ہے۔

ڈگری منسوخی کے بعد جسٹس طارق جہانگیری کی چھٹی کا امکان

تاہم عمران کی فوج سے مذاکرات کی خواہش تب دم توڑ گئی جب فوجی ترجمان نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ جب تک 9 مئی کے افسوسناک واقعات پر واضح الفاظ میں معافی نہیں مانگی جاتی، کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے ۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ ویسے بھی مذاکرات فوج سے نہیں بلکہ حکومت سے ہوتے ہیں کیونکہ فوج حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے۔ اس دوران ائی ایس ائی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید گرفتار ہو گئے اور پھر یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ اب عمران کو بھی فوج میں بغاوت کی سازش کے الزام میں ملٹری کورٹ لے جایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں بانی ہی ٹی آئی نے دوبارہ سے محمود اچکزئی کو مصالحتی کوششیں شروع کرنے کا پیغام بھجوایا اور اپنے ساتھیوں کو بھی حکومت کے پیچھے لگا دیا۔ لیکن اپنے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان فیس سیونگ کی خاطر مسلسل اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ ڈیل کے لیے مذاکرات بھی کرے اور وہ اس پر تنقید بھی کرتے رہیں، لہذا اب خواجہ آصف اور احسن اقبال نے بھی واضح کر دیا ہے کہ جب تک 9 مئی کے واقعات پر واضح معافی نہیں مانگی جائے گی تب تک حکومت اور پی ٹی ائی کے مابین مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری جانب عمران خان کا موقف ہے کہ 9 مئی کے واقعات ان کے خلاف ایک سازش تھے اور معافی انکو نہیں بلکہ ان سے مانگی جانی چاہیے۔ ویسے بھی وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگ لی تو یہ معافی ان کے خلاف مقدمات میں بطور ثبوت استعمال کی جا سکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت مذاکرات کی ضرورت عمران خان کو ہے جبکہ حکومت کو پی ٹی آئی سے مذاکرات کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ عمران کے خلاف 19 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ آنے والا ہے لہذا اسوقت تحریک انصاف سے مذاکرات کرنا نہیں بنتا۔ ان کے خیال میں پچھلے دو سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ عمران خان پر کڑا وقت ایا ہے لہذا انہیں بھی مکافات عمل کا سامنا کرنا چاہیے۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر نون لیگی قیادت یا اتحادی جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی چاہیں تو بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو ایک انتشاری ٹولے کے طور پر دیکھتی ہے جو فوج کے اندر بغاوت کی کوششوں میں ملوث ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے عمران خان کے لیے رہقئہ کی کوئی ڈیل حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔

Back to top button