گوادر کے عوام کا استحصال انہیں عسکریت پسند کیسے بناتا ہے؟

قیام پاکستان کے 11 برس بعد ستمبر 1958 میں جب گوادر کو عمان سے ساڑھے پانچ ارب روپے میں خرید کر پاکستان میں شامل کیا گیا تو اس کے باسیوں کا خیال تھا کہ اب ان کا علاقہ خوش حال ہو جائے گا اور وہ ترقی کے دھارے کا حصہ بن جائیں گے۔ لیکن صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ پھر 2013 میں گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز ہوا تو عوام نے ایک بار پھر خوشحالی اور اپنے مسائل کے حل کے خواب دیکھنے شروع کر دیے، لیکن اُن کی بھی تعبیر نہ ہو پائی۔ یوں بلوچستان کے نوجوانوں میں مایوسی بڑھنے لگی اور انہوں نے اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ سال 2016 میں جب چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے یعنی سے پیک پراجیکٹ کے تحت چین نے گوادر کی بندرگاہ کا انتظام سنبھالا اور بلوچستان میں ’ساحل اور وسائل‘ کے نعرے نے مقبولیت حاصل کی تو وہاں کے نوجوان بھی عسکریت پسندی کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے۔

اگست 2024 میں لسبیلہ میں واقع بیلہ کیمپ پر ہونے والے حملے میں ملوث قرار دیے گئے دونوں خودکش حملہ آوروں، ماہل بلوچ اور رضوان بلوچ کا تعلق بھی بلوچستان کے علاقے گودار سے تھا اور یہ دونوں یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے۔ اسی طرح پچھلے برس کراچی یونیورسٹی کے داخلی گیٹ پر چائنیز اساتذہ پر خودکش حملہ کرنے والے شاری بلوچ بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ پنجگور اور نوشکی میں ہونے والے بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں بھی وہاں کے نوجوان ملوث تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوان یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ یا زیر تعلیم تھے۔

سویلین ہونے کے باوجود عمران خان کا کورٹ مارشل یقینی کیوں ہے ؟

بلوچستان کے نوجوانوں میں عسکریت پسندی کے رجحان پر گفتگو کرتے ہوئے گوادر کے ایک سینئر وکیل رہنما محمد رستم کا کہنا تھا کہ ’آپ ہمارے وطن میں، ہماری اپنی سرزمین میں ہی ہمیں گھومنے پھرنے نہیں دیتے اور نہ ہی جلسہ کرنے دیتے ہیں جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ وطن ہمارا ہے اور اس پر ہمارا حق ہے۔ اگر پاکستانی فیصلہ سازوں کے رویے ایسے ہی رہے تو عسکریت پسندی میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا۔ رستم ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے معاملات تو واضح ہیں لیکن اب بلوچ یکہجتی کمیٹی والوں کو بھی جمہوری جدوجہد سے دور دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ۔لوگ اپنی جمہوری آواز کے ذریعے سے اپنے ہی وطن میں جینے کا حق مانگ رہے ہیں، اگر انھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا تو پھر سوالات اٹھیں گے اور نتیجتاً عسکری قوتیں مذید مضبوط ہو جائیں گی۔

یاد رہے کہ جب بلوچستان اور خصوصا گوادر میں چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبے کا آغاز ہوا تو سامنے آنے والے پروگرام میں بجلی اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے قیام کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ تاہم ان اعلانات کے باوجود ایک کشیدہ صورتحال نے جنم لیا جس کے نتیجے میں اس خطے میں سیاسی سماجی تحریکوں کے ساتھ عسکریت پسندی نے بھی فروغ پایا۔ حال ہی میں گوادر میں بلوچ یکہجتی کمیٹی نے مسخ شدہ لاشوں، جبری گمشدگیوں، سرحدی تجارت کی بندش کے خلاف کے ساتھ ساتھ گوادر کے ساحل اور وسائل پر مقامی لوگوں کے حق ملکیت تسلیم کرنے کے مطالبات کے ساتھ دھرنا دیا تھا۔ اس احتجاج کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین محمد کر رہی تھیں۔ اس دھرنے سے قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کا بیانیہ زیادہ تر لاپتہ افراد کی بازیابی کے گرد ہی گھومتا تھا۔

گوادر میں عام لوگوں، تاجروں، وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا یے کہ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے سے قبل ہی گوادر میں بندرگاہ اور اس کے آس پاس کے ترقیاتی منصوبوں کے باعث مقامی ماہی گیروں کے سمندر میں جانے کے حوالے سے درپیش رکاوٹوں اور ناکہ بندی بارے سخت عوامی جذبات پائے جاتے تھے۔ گہرے پانیوں میں غیر ملکی ٹرالنگ، بارشوں اور طوفان میں ماہی گیروں کی کشتیاں ٹوٹنے اور شہر میں مکانات گرنے کے بعد سرکار کی جانب سے امداد نہ ملنے اور ایرانی سرحد سے آنے والے تیل اور اشیائے خوردونوش کی روک تھام وہ مسائل تھے جن کی وجہ سے مقامی رہائشیوں میں ناراضی اور غصے کا احساس فروغ پا رہا تھا۔ ایک مقامی ماہی گیر محمد صالح کا دعویٰ ہے کہ ’سرکار گوادر والوں کے لیے نہیں سوچتی۔ تمام تک یقین دہانیوں کے باوجود غیر ملکی ٹرالنگ اُسی طرح سے جاری ہے جیسے پہلے ہو رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پاتی کیونکہ گوادر کی ساری مچھلی بڑے بڑے ٹرالر کھینچ کر لے جاتے ہیں۔

ایک مقامی نوجوان ماہی گیر ساجد بلوچ نے گوادر کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں تو گھر میں سوئے نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کیا اِدھر پولیس نہیں، قانون نہیں، عدالت نہیں۔ اب ایک بلوچ عورت کی کال پر گوادر کی عوام نکل کھڑی ہوئی ہے کیونکہ لوگ بہت ہی مجبور ہو چکے ہیں۔

ساجد نے ساحل پر موجود کام کرنے والے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دیکھیں، اِن بچوں کی عمر سکول جانے کی ہے۔ یہ کیا ساری زندگی مچھلیاں ہی پکڑیں گے۔۔۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں گوادر کے پہاڑ دے دو، یا پورا سمندر ہمیں دے دو۔۔۔ ہمیں یہ سب نہیں چاہیے، ہمیں فقط ایک اچھا ہسپتال چاہیے، اور وہاں ایک اچھا ڈاکٹر چاہیے۔ اسکے علاوہ ایک اچھا سکول اور ایک اچھا استاد چاہیئے۔

مقامی ماہی گیروں کے رہنما یونس انور کہتے ہیں کہ ’اب ہمارے گوادر کا سمندر آزاد نہیں رہا، سمندر میں مختلف جہگوں کو ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں جانا اور مچھلیوں کا شکار کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ اب ہماری شکارگاہیں محدود ہوتی جا رہی ہیں، دوسرا بڑا مسئلہ غیر ملکی ٹرالنگ کا ہے جو مچھلی کی نسل کشی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ’گوادر کو پانی ملے گا، بجلی ملے گی، مگر اب انکی عمر بھی پچاس سال ہو چکی ہے اور آج بھی وہاں کے عوام کا وہی پرانا مطالبہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو روزگار ہو، ہمیں پنے کا صاف پانی دو، بجلی فراہم کرو، ہمارے بچوں کے لیے اسکول بناؤ اور ہمارے لیے ہسپتال کھولو۔ اگر یہاں کے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق نہیں ملیں گے تو پھر یہاں کے لوگ اپنے حق کے لیے بندوق ہی اٹھائیں گے۔

Back to top button