جسٹس جہانگیری کی قانون کی ڈگری دو نمبر کیسے ثابت ہوئی؟

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری  کی ڈگری کو غیر موثر قرار دینے کا فیصلہ معطل تو کر دیا ہے لیکن دستیاب شواہد کی روشنی میں جسٹس جہانگیری کی ڈگری دو نمبر ثابت ہو چکی ہے اور ان کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا ممکن نظر نہیں آتا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس امجد علی سہتو پر مشتمل بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری غیر موثر قرار دینے کے جامعہ کراچی کے فیصلے کو صرف اس بنیاد پر معطل کیا ہے کہ متاثرہ فریق کو نوٹس نہیں دیا گیا اور اس کا موقف نہیں سنا گیا۔ دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اراکین کا موقف تھا کہ دستاویزی شواہد سے ثابت ہو چکا کہ جسٹس جہانگیری نے دو نمبری کر کے ڈگری حاصل کی لہذا انکا موقف سننے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جامعہ کراچی کا موقف ہے کہ جسٹس جہانگیری جس بھی عدالت میں چلے جائیں ان کی ڈگری دو نمبر ہی ثابت ہو گی اور جامعہ کی جانب سے ان کے ساتھ صرف اس لیے رعایت نہیں برتی جا سکتی تھی کہ وہ اب اسلام اباد ہائی کورٹ کے جج بن چکے ہیں۔

گوادر کے عوام کا استحصال انہیں عسکریت پسند کیسے بناتا ہے؟

یاد رہے کہ جسٹس طارق جہانگیری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججز میں شمار کیا جاتا ہے جو تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے متاثر ہیں اور ماضی میں ان کے حق میں کئی فیصلے دے چکے ہیں۔ لہذا جسٹس جہانگیری کے قریبی رفقا کا موقف ہے کہ انہیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب جامعہ کراچی کی 12 رکنی ان فیئر مینز کمیٹی نے طارق جہانگیری کی ایل ایل بی کی سند کے کیس کی سمری جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کو جو سمری بھیجی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ ان کی ڈگری دو نمبر ہے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ طارق جیلہانگیری کے دو انرولمنٹ نمبر تھے، وہ امتحان کے دوران نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے جس پر انکا نتیجہ منسوخ کرکے انھیں تین برس کے لیے کسی بھی امتحان میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کی ان فئیر مینز کمیٹی  کا اجلاس 17؍ اگست 2024ء کو شعبہ امتحانات میں منعقد کیا گیا تھا جس میں کمیٹی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر مسرت، رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر وحید، ڈین آف اسلامک سٹڈیز، ڈین آف فارمیسی، ڈین آف میڈیسن، ڈین آف ایجوکیشن، مشیر طلبہ امور اور ناظم امتحانات سمیت درجن سے زائد سینئیر پروفیسرز نے شرکت کی تھی۔

جسٹس طارق محمود کی ایل ایل بی کی سند کے حوالے سے سمری میں کہا گیا تھا کہ مسٹر وہ پہلی بار طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام سے 1988 میں LLB پارٹ ون کے سالانہ امتحانات میں شریک ہوئے لیکن انہیں 21 دسمبر 1988 کے پارٹ ون کے پیپر نمبر تین میں نقل کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا تھا اور ان پر ان فیر مینز کا پرچہ درج ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طارق جہانگیری نے جس انرولمنٹ نمبر کے تحت یہ امتحان دیا وہ نعیم الدین ولد معین الدین کو پہلے ہی الاٹ کیا جاچکا تھا جو کہ گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کا باقاعدہ طالب علم تھا اور سال 1982/83 کے سیشن میں کالج میں داخل ہوا تھا۔

سمری کے مطابق بعد ازاں طارق جہانگیری کے والد محمد اکرم قاضی کا نام بدل کر صرف محمد اکرم ہو گیا اور موصوف نے اس ولدیت کے ساتھ سال 1989 میں ایل ایل بی پارٹ وان کے سالانہ امتحان میں شرکت کی۔ لیکن انہوں نے اس امتحان میں جس انرولمنٹ نمبر کے تحت شرکت کی وہ پہلے ہی امتیاز احمد ولد محمد الٰہی کو جاری کیا جاچکا تھا اور وہ اس امتحان میں بطور ریگولر طالب علم شریک ہوا تھا۔ امتیاز الہی نے گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج میں 88-1987 کے سیشن میں داخلہ لیا تھا- طارق محمود تیسری بار طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام سے 1991 میں ایل ایل بی پارٹ د2م کے سالانہ امتحان میں ایک اور انرولمنٹ نمبر کے ساتھ شریک ہوئے۔ سمری میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل لیگل ایجوکیشن رولز 1978 کے مطابق، یہ ایک لازمی شرط ہے7 کہ قانون کے طلباء کو کم از کم 75 فیصد حاضری کے ساتھ کسی الحاق شدہ اور تسلیم شدہ لاء کالج میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چاہیے۔ طارق محمود جہانگیری نے دعویٰ کیا کہ وہ اسلامیہ لاء کالج کراچی کے باقاعدہ طالب علم ہیں جب کہ اسلامیہ لاء کالج کراچی کے پرنسپل کے خط کی روشنی اور فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق، طارق محمود جہانگیری 1982 سے 1991 تک کبھی بھی گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کراچی کے طالب علم نہیں رہے۔

جامعہ کراچی کے ایل ایل بی کے رجسٹر کے مطابق سال اول کے سالانہ امتحان 1988 کے ریکارڈ کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم  چار پرچوں میں شریک ہوا۔ وہ پرچہ نمبر دوم میں غیر حاضر رہا اور پرچہ نمبر تین میں نقل کرتے ہوئے رنگ ہاتھوں پکڑا گیا۔ چنانچہ ان فیئر مینز کے تحت اس کا نتیجہ دوبارہ روک لیا گیا اور سرخ حاشیہ لگا کر UFM کا کیس بنا دیا گیا۔

جامعہ کراچی شعبہ امتحانات کے 13 دسمبر 1989کے نا اہلی کے سرکلر نمبر 88 کے مطابق غیر قانونی ذرائع کے استعمال کا الزام ثابت ہونے پر طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم سمیت 61 طلباء کے نتائج منسوخ کر دیے گئے اور انہیں مزید کسی بھی امتحان میں شرکت سے روک دیا گیا۔ اس رپورٹ کے سیریل نمبر 14 پر، طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا اور ان کا نتیجہ منسوخ کر کے مزید تین سال کے لیے امتحانات میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ ان شواہد کی بنیاد پر جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ اراکین کا موقف ہے کہ طارق جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری دو نمبر ہے اور یہ حقیقت کسی بھی عدالت میں ثابت کی جا سکتی ہے۔

Back to top button