تحریک انصاف کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی فوری وجہ کیا ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے خلاف اسلام اباد کے جلسے کے فوراً بعد کریک ڈاؤن کی بنیادی وجہ علی امین گنڈاپور کی یہ دھمکی تھی کہ اگر عمران خان کو 15 روز میں رہا نہ کیا گیا تو وہ جیل توڑ کر انہیں باہر نکال لیں گے۔ انکا کہنا ہے کہ پی ٹی ائی والے عمران کی رہائی کے لیے بنگلہ دیش کی طرز پر حکومت مخالف تحریک کو دہرانے کا ارادہ بنا رہے تھے لہٰذا ان کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری ہو گیا تھا۔

اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ موجودہ بحران کے حوالے سے 2007ء کے اپریل میں شروع ہوا تھا۔ ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چند فائلیں دکھا کر استعفیٰ مانگا  گیا۔ موصوف نے انکار کر دیا تو ان کی حمایت میں ”عوامی تحریک“ امڈ  پڑی۔ وہ تحریک کتنی فطری اور برجستہ تھی اس کے بارے میں تاریخ ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ البتہ محلاتی سازشوں کی حرکیات سمجھنے والے اصرار کرتے ہیں کہ افتخار چوہدری کے ”انکار“ کو ”ان“ کی سرپرستی بھی میسر تھی جو جنرل مشرف کو اپنے ادارے پر بوجھ تصور کرنا شروع ہو گئے تھے۔ امریکہ کے ساتھ مل کر نام نہاد ”دہشت گردی“ کے خلاف ہوئی جنگ کے علاوہ ہمارے ازلی دشمن کے ساتھ ”کیمپ ڈیوڈ“ جیسے سمجھوتے کے امکانات نے بھی ادارے کے کئی افراد کو ناراض کر دیا تھا۔ حقیقت کچھ بھی رہی ہو۔ فطری یا محلاتی سازش کی بنیاد پر چلائی عدلیہ بحالی تحریک بالآخر افتخار چوہدری کے چیف جسٹس کے منصب پر واپس لوٹنے پر منتج ہوئی۔ وہ اپنے منصب پر لوٹے تو ”ماورائے حکومت“ ہو گئے۔ اراکین پارلیمان کی ڈگریاں چیک کرنے کے علاوہ ازخود نوٹسوں کے ذریعے وزراء کو بھی عدالتوں میں طلب کرنے لگے۔

سیکرٹری انفارمیشن PTI رؤف حسن کے مزید انڈین کنکشن بے نقاب

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ بتدریج نوبت بہ آ گئی کہ منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ عدالتی حکم  دیا گیس کہ وہ پاکستان کے منتخب صدر آصف زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھیں جس کے ذریعے سوئس حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ وہاں کے بینکوں میں آصف زرداری کی مبینہ طور پر چھپائی دولت کا سراغ لگائے۔ لیکن گیلانی نے اپنے ہی ملک کے منتخب صدر کے خلاف ایک غیر ملک کو خط لکھ کر پاکستان کو بدنام کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس پہلو کو سراہا نہیں گیا۔ قومی ضمیر کے محافظ اور کرپشن کے دشمن میڈیا نے ٹی وی سکرینوں پر ٹکروں کی برسات اور پھیپھڑوں کا زور لگاتی آوازوں کے ذریعے افتخار چوہدری کا ساتھ دیا۔ یوں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم عدولی پر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔ لیکن آج آصف زرداری ایوان صدر میں مزید پانچ سال رہنے کیلئے واپس آ چکے ہیں اور یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ بن چکے ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ دوسری جانب افتخار چوہدری کا نام تاریخ میں عدالتی ولن کے طور پر لکھا جا چکا ہے۔ افتخار چوہدری جب جعلی مسیحا کا روپ دھارے میرے بے شمار ساتھیوں کے ہیرو بنے ہوئے تھے تو میں فریاد کرتا رہا کہ موصوف جو روایات سیٹ کررہے ہیں بالآخر ہماری ریاست کے اداروں کے مابین توازن کو تہس نہس کردیں گی۔ لیکن مجھے ”جیالا“ ہونے کے طعنے دیتے ہوئے خاموش کرنے کی کوشش ہوئی۔ مگر افتخار چوہدری جو راہ دکھا گئے تھے اس پر چلنے کو میاں ثاقب نثار ہی نہیں بلکہ آصف سعید کھوسہ بھی دل وجان سے تیار ہوگئے۔ نشانہ ان کا بھی ایک اور منتخب وزیر اعظم اور اس کی حکومت ہی رہے۔ ایک اور عدالتی حکم کے نتیجے میں نواز شریف تاحیات سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہوئے تو ان کی جگہ ایک ”صادق اور امین“ کی سند لینے والا کپتان 2018ء میں وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ گیا۔”باریاں لینے والے نااہل اور بدعنوان“ سیاستدانوں کے خلاف ریاست کے تینوں ستون اگست 2018ء سے اکتوبر 2021ء تک ”سیم پیج“ پر رہے۔ زندگی یوں ہی رواں رہتی مگر سادہ لوح عوام کو سیدھی راہ پر دھکیلنے کے لئے قمر باجوہ کو اپنے عہدے کی میعاد میں مزید توسیع درکار تھی۔ عمران خان اس حوالے سے ”پکڑائی“ نہیں دے رہے تھے۔ وہ اس گماں میں مبتلا رہے کہ کسی اور کو ”فیض یاب“ کرتے ہوئے اپنے تھلے لگایا جا سکتا ہے۔

چنانچہ نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں عمران وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گے۔ لیکن عمران خان نے فارغ ہونے سے پہلے عالمی معیشت کے نگہبانوں کے ساتھ ہوئے معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے کی جانب دھکیل دیا تھا۔ دیوالیہ پن سے بچنے کی خاطر عمران کی جگہ لینے والوں نے ناقابل التوا اقدامات لئے تو ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ لیکن یوتھیے آج بھی یہ شور مچا رہے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا جنازہ اس لیے نکلا کہ عمران کو فارغ کر دیا گیا۔ اب عمران حکومت کی جگہ لینے والی شہباز حکومت اور اس کے سرپرست وسہولت کاروں کو عوام کی اکثریت اپنی معاشی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار تصور کرتی ہے۔ ایسے عالم میں افتخار چوہدری کی بنائی روایات سے مالا مال ہوا ”ستون“ خود کو ریاست کے باقی دو ستونوں کے مقابلے میں اخلاقی اعتبار سے زیادہ طاقتور تصور کر رہا ہے۔ مگر وہاں بیٹھے افراد کی ”اصولوں“ سے محبت نے دیگر اداروں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایسے میں محلاتی سازشیں جاری ہیں۔ دریں اثناء باریاں لینے والے کرپٹ اور موروثی سیاستدانوں کی جگہ ”تیسری قوت“ کی سرپرستی کا پراجیکٹ چلانے والے فیض صاحب بھی اب گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ”کسی اور کی“ طاقت ور ترین ریاستی عہدے پر تعیناتی سے مایوس ہوکر ریٹائر ہو جانے کے باوجود بھی ”تیسری قوت“ والے پراجیکٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ ان پر لگائے الزام اب عمران خان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

Back to top button