گنڈا پور پاکستان مخالف افغان طالبان سے یاری ڈالنے پر بضد کیوں؟

افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے خیبرپختونخوا حکومت کا وفد افغانستان بھیجنے کا اعلان کر کے‘‘ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر قیادت اور پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جہاں ایک طرف حکمراں جماعت نے وزیراعلی ٰ علی امین گنڈا پور کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس عمل کو وفاق سے غداری قرار دیا ہے وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کی جیل سے باہر قیادت گنڈاپور کے اس بیان کا دفاع کرنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ابھی اسلام آباد میں ہونے والے جلسہ عام میں علی امین گنڈا پور کی بلندوبانگ دعوؤں پر مبنی تقریر کے آفٹرشاکس سے باہر نہیں نکلی تھی کہ افغانستان سے مذاکرات کے نئے بیان نے اسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پی ٹی آئی قائدین نہ اس بیان کی تائید کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی تردید کر کے عمران خان کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطے کرنے اور وفد بھیجنے کے بیان کو وفاقی وزیر خواجہ آصف نے وفاق پر حملہ قرار دیا ہے، لیکن اس بیان کے فوراً بعد علی امین گنڈاپور نے پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔

وزیراعلیٰ اور افغان قونصل جنرل کے درمیان ملاقات وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہوئی ہے۔ جس میں باہمی دلچسپی کے امور بشمول باہمی تجارت کے فروغ، علاقائی امن و استحکام، صوبے میں مقیم افغان شہریوں کو درپیش مسائل کے حل سمیت دیگر معاملات پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے دونوں اطراف کے لوگ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔ علاقائی امن پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہییں۔انہوں نے قیام امن کے لیے مذاکرات پر ضرور دیا اور کہا کہ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلےمیں ایک جرگہ تشکیل دے کر پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کرے۔ جس کے ذریعے قیام امن کو ممکن بنایا جا سکے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں، جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔

علی امین گنڈاپور کی مذاکرات کی غرض سے افغان قونصل جنرل سے ہونے والی ملاقات کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف سے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور گورنر خیبر پختونخوا کی گفتگو کے دوران اتفاق کیا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ گورنر خیبر پختونخوا سے مل کر صوبے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔

دوسری جانب مبصرین کے مطابق آئینی طور پر کوئی صوبائی اکائی فیڈریشن کی اجازت کے بغیر کسی بھی ملک سے کوئی مذاکرات نہیں کر سکتی۔ خیبرپختونخوا حکومت کا وفاقی حکومت کی مرضی کے برخلاف افغان طالبان سے مذاکرات کا اعلان اور اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے افغان قونصل جنرل سے ملاقات نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ اس عمل کا گنڈاپور سرکار کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق گنڈاپور کے افغانستان سے مذاکرات کے بیان کو صرف سیاسی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی ذمہ داری ہے کہ اپنے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کریں،اگرچہ ان کی قیام امن  کی خواہش درست یے لیکن وہ اس کیلئے جو طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں وہ خلاف آئین ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کے لئے وفاق کو نظر انداز کرنے کی بات درست نہیں ہے،گنڈاپور کو وفاق کے ساتھ ملکر صوبے میں قیام امن کیلئے حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کا سولو فلائٹ لینے کا فیصلہ غیر دانشمندانہ دکھائی دیتا ہے۔ جس سے وفاق اور صوبائی حکومت کے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

Back to top button