سینئر وکلا کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیمی بل کی مخالفت

ملک کے سینئر وکلا نے مجوزہ آئینی پیکج پر شدید تحفظات کا اظہار کرتےہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس تنازع سےدور رہنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

 ایڈووکیٹ سپریم کورٹ منیر اے ملک اور فیصل صدیقی نے ایک بیان میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر زور دیاہے کہ وہ 25 اکتوبر 2024 کو عزت کے ساتھ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں اور قانون کےمطابق 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے۔

انہوں نے چیف جسٹس سےیہ بھی کہاکہ وہ کسی مجوزہ آئینی عدالت یا بینچ کےلیے کسی تقرری کےلیے نامزد نہ ہوں۔انہوں نےیاد دلایا کہ ہم نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کےطور پر کام کیاتھا جب ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہواتھا اور اپنی تحریروں کےذریعے ان کی عوامی حمایت بھی کی تھی۔انہوں نے آئینی ترامیم کے پیکج کےذریعے حکومتی اقدام کو مشکوک اور آئین، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس پر حملہ قراردیا۔انہوں نے کہاکہ آئین میں کی جانے والی ترامیم ایسی پارلیمنٹ کےدائرہ اختیار میں نہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، لہٰذا ہم قانونی برادری، عدلیہ پر زور دیتےہیں کہ وہ مزاحمت کریں اور اس کو مسترد کریں۔

دریں اثنا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کےصدر شہزاد شوکت نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیاکہ حکومت آئینی پیکج کو اتنا خفیہ کیوں رکھ رہی ہے، اسے مناسب بحث کےلیے نامزد فورمز پر کیوں نہیں لارہی، جس سےپوری قوم اس معاملے پر قیاس آرائیاں کر رہی ہے۔انہوں نےنشاندہی کی کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مجوزہ ترمیم کی مخالفت نہیں کرےگی اگر یہ صرف ایک آئینی عدالت کےادارے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کےمقدمات کےفیصلے میں غیرمعمولی تاخیر کو روکنے کےلیے ضروری ہے کیوں کہ سپریم کورٹ زیادہ تر سیاسی نوعیت کےمقدمات کی سماعت میں مصروف ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا آج آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان

شہزاد شوکت کا کہناتھا کہ اگر حکومت نےججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنے کی کوشش کی یا کسی شخص کےلیے مخصوص آئینی ترمیم کی تو وہ اس پر مزاحمت کریں گے کیوں کہ سپریم کورٹ پہلےہی شخصی مخصوص قانون سازی کو کالعدم قرار دےچکی ہے۔

سینئر قانون دان خرم چغتائی نےکہا کہ قوم نے ابھی تک 18ویں ترمیم کےذریعے کی گئی ’آئینی پیچ ورک‘ کی غلطیوں پر قابو نہیں پایا ہے جس کےمتعارف ہونےسے پہلے اس پر مختلف جماعتوں کے رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ پر ایک سال تک بحث کی گئی تھی، جب کہ موجودہ حکومت اعظم نذیر تارڑ کی پسند پرتیار کردہ ایک اور آئینی پیکیج کو متعارف کرانے کی غیر سنجیدہ کوششیں کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم بھی ایک ایسےوقت میں کی جارہی ہے جب پارلیمنٹ مخصوص نشستوں کےمعاملے کی وجہ سےنامکمل ہے اور کئی حلقوں کےانتخابات کےنتائج متنازع ہیں، ایک ایسی حکومت جو سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود سیکرٹری قانون کا تقرر بھی نہیں کر سکتی وہ آئینی ترمیم پاس کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے دور رس اثرات ہیں۔

Back to top button