الیکشن کمیشن اور 8 ججز کی جنگ میں آخری جیت کس کی ہو گی؟

سپریم کورٹ کے 8 ججز کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دینے والے ججوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام لکھے گے دھمکی آمیز خط نے دونوں اداروں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں بالآخر جیت اس کی ہو گی جس کے ساتھ حکومت کھڑی ہو گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے مجوزہ آئینی ترامیم سے صرف ایک روز پہلے 8 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو ایک ترمیم ایسی بھی کرنی چاہیے جس سے سیاسی ایجنڈا رکھنے والے جج حضرات کو اپنی سیاسی جماعت بنانے کی اجازت مل جائے۔ دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت 8 ججز کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کا مقصد اس آیئنی ترمیم کو روکنا ہے جس سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے عہدے کی معیاد میں تین سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق خط کی ٹائمنگ سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ 8 ججز اس وقت کھل کر تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کھیل رہے ہیں۔

9 مئی کے حملوں سے پہلے فیض نے عمران کو 603 پیغامات میں کیا کہا؟

یاد رہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے 13 میں سے 8 ججز نے دو ماہ گزر جانے کے باوجود تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کی بجائے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں فروری کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے امیدوار ‘ تحریک انصاف کے امیدوار ہی تصور ہوں گے اور الیکشن کمیشن اس فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد کرے۔ یہ فیصلہ چار صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 41 اراکین سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش اور تاخیری حربہ ہے اور یہ کہ یہ وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ مزید یہ کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا‘ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن کے مطابق تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ لہذا اٹھ ججز کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اب وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔

عدالتی پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واضح ہے اور اس کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیر کے نتائج ہو سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 8 ججز کے خط کے بعد دونوں ادارے آمنے سامنے اگئے ہیں اور الیکشن کمیشن دو راہے پر کھڑا ہو چکا ہے کیوں کہ اس فیصلے میں انٹرا پارٹی انتخابات کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے 8 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کو دھمکی آمیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا پارٹی اسٹیٹس ابھی تک واضح نہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ جب تک پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آ جاتا‘ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پارلیمنٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں یہ ترمیم کر چکا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ کی دفعات کے حوالے سے کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی یہ ترمیم نہایت اہمیت کی حامل ہے جو اَب ایکٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور الیکشن کمیشن کو اپنے نقطۂ نظر پر کھڑا رہنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ ایسے میں اخری جنگ دونوں میں سے اس ادارے کی ہوگی جس کے ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہوگی۔

Back to top button