افغانستان کی سی پیک میں شمولیت پر بھارت چیخیں کیوں مارنے لگا؟

پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کے فورا بعد ہونے والی چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات نے خطے میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کا اشارہ دے دیاہے۔ افغانستان کے ساتھ چین اور پاکستان کے مستحکم ہوتے ہوئے تعلقات کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار نے چیخیں مارنا شروع کر دیں ہیں اور سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کو بھارت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ سہ فریقی مذاکرات میں پاکستان افغانستان اور چین کے مابین جہاں سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہیں دوسری جانب افغانستان نے بھی اپنی سرزمین پاکستان یا چین مخالف دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب پاک بھارت جنگ کے بعد خطے میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے،سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے اعلان نے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری کے مطابق موجودہ حالات میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا ہو جانا ہی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس اہم ملاقات کا وقت بہت معنی خیز ہے، دوسری جانب اس ملاقات میں ہونے والے فیصلوں سے جہاں جہاں سگنلز بھجوائے گئے ہیں، وہ بھی بہت قابل غور ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ چین نے سن 2013 میں پاکستان کے ساتھ سی پیک منصوبے کا آغاز کیا تھا تاکہ مغربی چین کوگوادر بندرگاہ سے جوڑ کر تجارتی راہیں ہموار کی جا سکیں۔ نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر شاہد ملک کے مطابق حالیہ فیصلے کے تحت اب افغانستان کے سی پیک میں شامل ہونے سے چین کے لیے اپنی مصنوعات کو وسطی ایشیا بلکہ یورپ کی مارکیٹس تک پہنچانا بھی ممکن ہو سکے گا۔  یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ شاہد ملک کے مطابق نئے منصوبے کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ایکسپریس ہائی وے بھی بنائی جائے گی، جو تجارتی سامان کی تیز رفتار ترسیل کو ممکن بنا سکے گی۔

تاہم دوسری جانب مودی سرکار سی پیک منصوبے میں افغانستان کی شمولیت کو بھارت کیلئے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے۔ کئی بھارتی مبصرین اس اقدام کو افغانستان کے معدنی ذخائر تک چینی رسائی، روڈ نیٹ ورک کے ممکنہ عسکری استعمال، بحری سکیورٹی، سفارتی تناؤ اور بھارت اور افغانستان کے تعلقات میں رکاوٹ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ کچھ بھارتی اخبارات نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ روڈ نیٹ ورک اصل میں بھارت کے خلاف بنایا جا رہا ہے اور یہ سڑکیں مستقبل میں فوجی گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ البتہ خورشید قصوری  اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانا منصوبہ ہے جو پاکستان اور افغان حکومت کے مابین اختلافات کی وجہ سے سرد خانے میں چلا گیا تھا، ”آج کل گاڑیوں کی جنگ والا زمانہ نہیں رہا، اب تو جنگ میزائلوں، ڈرونز اور ائیر فائیٹرز اور جدید جنگی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لیے اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘‘

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے سی پیک منصوبے میں شمولیت پر بھارت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا بھارتی میڈیا کی ساکھ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔‘‘ مبصرین کے مطابق ”بھارت سمجھتا ہے کہ سی پیک چین کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے ذریعے وہ جنوبی ایشیا میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ فوجی و انفراسٹرکچر پارٹنرشپس قائم کر کے بھارت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ چین کی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بڑھتی شراکت داری بھی اسی حکمت عملی کا مظہر سمجھی جاتی ہےجبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔‘‘تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان، چین اور افغانستان ہمسایہ ممالک ہیں، اس لیے ان تینوں کے درمیان کسی بھی قسم کی ہم آہنگی کو بھارت اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، ”تاہم حقیقت یہ ہے کہ عالمی اور علاقائی کشیدگی کے اس دور میں، ہمسایہ ممالک کو قریب لانے کی ہر کوشش خوش آئند ہے۔

شکست کھانے کے بعد انڈین RAW اور BLA کی دہشتگرد کارروائیاں تیز

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ چین پاکستان اور افغانستان سہ فریقی مذاکرات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری لانے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنے اور پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے سفیروں کے تقرری پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ”اگر سی پیک کو افغانستان تک توسیع دی جاتی ہے اور چین وہاں سرمایہ کاری میں اضافہ کرتا ہے تو یہ پیش رفت پورے خطے میں گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے یہاں خوشحالی آئے گی لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ یہاں امن ہو اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘مبصرین کے مطابق دنیا نے پہلے چین کی معاشی ترقی دیکھی تھی، حالیہ پاکستان اور بھارت کشیدگی میں چین کی دفاعی صلاحیت دنیا کے سامنے آئی اور اب چین سفارت کاری کی دنیا میں خاموشی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

Back to top button