کیا گنڈاپور کے بعد بیرسٹر گوہر کی بھی منجی ٹھکنے والی ہے؟

پی ٹی آئی میں تبدیلی کینیڈا کئی پارٹی رہنماؤں کو اپنی لپیٹ میں لیتی دکھائی دیتی ہے۔پارٹی میں بڑھتی ہوئی گروپنگ اور انتشار سے پی ٹی آئی رہنما بد دل ہونے لگے۔ متعدد یوتھیے رہنماؤں نے سیاست سے عارضی بریک لینے اور بعض رہنمائوں نے نئے سیاسی گھونسلوں کی تلاش کیلئے مشاورت شروع کر دی ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی چیئر مین شپ بیرسٹر گوہر کے لیے بھی اب بوجھ بن گئی ہے۔ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی بہ نسبت ٹھنڈے مزاج کے بیرسٹر گو ہر نے پی ٹی آئی کی چیئر مین شپ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرسٹر گوہر نے نہ صرف اپنے قریبی لوگوں کے سامنے پارٹی چیئرمین شپ چھوڑنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے جیل میں ملاقات کے دوران وہ عمران خان سے بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں اب پارٹی کی چیئر مین شپ سے سبکدوش ہونے دیا جائے۔ وہ مزید یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ تاہم عمران خان نے فی الحال یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جیسے ہی اس عہدے کے لیے مناسب متبادل کا بندوبست ہوتا ہے تو وہ ان کو ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیں گے۔ ذرائع کے بقول بیرسٹر گوہر کے لیے اب چیئر مین شپ کا عہدہ اس قدر بھاری ہو چکا ہے کہ اس کے بوجھ نے ان کے مزاج پر بھی اثر ڈالا ہے اور وہ زیادہ پُر جوش دکھائی نہیں دیتے۔ ذرائع کے مطابق اب یوتھیے بھی ان سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے پی ٹی آئی کے کیسز کی سماعتوں پر بیرسٹر گوہر کے ساتھ وکلا کی ایک فوج ہوا کرتی تھی۔ لیکن گذشتہ دنوں الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے ہونے والی دو پیشیوں پر وہ تنہا آئے اور بجھے بجھے سے دکھائی دیئے۔
ذرائع کے مطابق چیئر مین شپ سے بیرسٹر گوہر کی بیزاری کی وجہ پارٹی میں حد رجہ بڑھتا انتشار، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل میں تیزی اور سب سے بڑھ کر عمران خان کی جانب سے بزدلی اور نالائقی کے طعنے ہیں۔ان عوامل کے ساتھ عمران خان کی متلون مزاجی بھی ایک وجہ ہے، جس نے اب بیرسٹر گوہر کی بس کرادی ہے۔ بیرسٹر گوہر ہر دو گھنٹے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بدلتے موقف سے اکتا چکے ہیں۔ جس کے بعد ہی انھوں نے پارٹی چیئرمین شپ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس بے اختیار عہدے کو مزید پاس رکھنے میں بیرسٹر گوہر کی دلچسپی اس لئے بھی ختم ہوگئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کر چکے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ محض ایک وکیل تھے۔ سیاستدان کے طور پر انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اگر چہ پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ لیکن تیسرے چوتھے درجے کے رہنما تھے۔ پھر وہ پی ٹی آئی میں آگئے اور حادثاتی طور پر پارٹی کے چیئر مین بھی بن گئے۔ اس کے نتیجے میں انہیں ایک دم گمنامی سے قومی سطح کی سیاسی پہچان ملی۔ رکن قومی اسمبلی بھی بن گئے، جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچاتھا۔ ذرائع کے مطابق اس قدر مختصر عرصے میں اب یہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد وہ ڈمی چیئر مین کے طور پر مزید گندا نہیں ہونا چاہتے۔ ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف پارٹی کے اندر سے ان پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ وہیں دوسری جانب بطور پارٹی چیئر مین ناکام احتجاجی تحریک چلانے پر انھیں بیرون ملک بیٹھی گالم گلوچ بریگیڈ کی جانب سے سخت ٹرولنگ کا سامنا ہے، ایسے میں بیرسٹر گوہر چیئرمین مین شپ کا بوجھ اتار کر سائیڈ پکڑنا چاہتے ہیں اور اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت انجوائے کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ذرائع کے مطابق انھیں اپنی سوچ سے بھی زیادہ سیاسی شہرت مل چکی ہے۔ چنانچہ اب وہ ذمے داریوں سے مبرا پر سکون سیاست کرنے کے خواہاں ہیں۔ جس کے لیے چیئر مین شپ کا طوق اتارنا ضروری ہے۔ لیکن اس پر فی الحال عمران خان راضی نہیں۔ اس کا سبب ان کی بیرسٹر گوہر سے محبت یا ان کی کارکردگی سے مطمئن ہونا نہیں۔ بلکہ دوسری مجبوریاں ہیں۔ ذرائع کے بقول عمران خان نہیں چاہتے کہ ایک ایسے موقع پر جب پارٹی پہلے ہی بد ترین اندرونی انتشار کا شکار ہے، کسی نئے چئیر مین کو لے آئیں، جس کے پارٹی میں بہت سے امیدوار ہیں اور وہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب بیرسٹر گوہر کی چھٹی ہو اور یہ عہدہ انھیں مل جائے۔ پی ٹی آئی زرائع کے مطابق عمران خان کے خیال میں موجودہ حالات میں نئے چیئر مین کا آنا پارٹی کے اندر ایک نئے خلفشار کا سبب بن سکتا ہے۔ پہلے ہی سلمان اکرم راجہ کو لے کر پارٹی کے اندر سے یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ بغیر انٹرا پارٹی الیکشن انہیں سیکریٹری جنرل بنانا پی ٹی آئی کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بیرسٹر گو ہر اس موقع پر مستعفی ہو جاتے ہیں تو چیئر مین شپ کے متعدد امیدوار سامنے آجائیں گے۔ ان میں سے کسی ایک کو چیئرمین بنایا گیا تو محروم رہ جانے والے ناراض ہو جائیں گے اور وہ نئے چیئر مین کی ٹانگیں کھینچیں گے۔ اس طرح پہلے سے منتشر پارٹی میں مزید خلفشار پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ عمران خان اس متوقع صورت حال سے بچنے کے لیے نہیں چاہتے کے اس موقع پر بیرسٹر گوہر چیئر مین شپ چھوڑیں۔ اسی لئے بیر سر گو ہر کو ٹالا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے اس ٹال مٹول کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیرسٹر گوہر جیسا متبادل شریف النفس چیئر مین پارٹی میں دوسرا کوئی میسر نہیں، جو عمران خان کی ہر قسم کی سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کو سر جھکا کرسن لے۔ ذرائع نے بتایا کہ متعدد دفعہ عمران خان نے بیرسٹر گوہر کو اس حد تک آڑے ہاتھوں لیا کہ گویا کوئی ٹیچر پرائمری کلاس کے اسٹوڈنٹ کو ڈانٹ رہا ہو۔ اس ہتک آمیز رویے پر بیرسٹر گوہردل برداشتہ ہیں۔ اس طرح کے رویے نے بھی ان میں یہ سوچ پیدا کی ہے کہ اب چیئر مین شپ کو الوداع کہہ دینا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر گوہر کو شروع میں زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب انھیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ وہ ایک ڈمی چیئرمین ہیں۔ بہت سے فیصلے ان سے مشورہ کیے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر کر لئے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کی کارروائی ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا تھا۔ لیکن بیرسٹر گوہر میڈ یا سے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ حتی کہ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کا با قاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بیرسٹر گوہر نے چیئر مین شپ چھوڑنے کی درخواست کی ہے۔ دو تین ماہ قبل بھی بیرسٹر گو ہر نے عمران خان سے کہا تھا خان صاحب آپ کسی اور کا بندوبست کر لیں۔ اب میں چیئر مین شپ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں“۔ تب بھی بیرسٹر گوہر کی التجا قبول نہیں کی گئی تھی تاہم اب بیرسٹر گوہر عہدہ چھوڑنے کیلئے پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں لگتا ہے کہ جلد وی عہدے سے خود سبکدوش ہو جائیں گے یا انھیں بھی شیر افضل مروت اور علی امین گنڈاپور کی طرح بے عزت کرکے عہدے سے برطرف کر دیا جائے گا۔