فوج سے رابطے ختم ہونے کے بعد PTIترلوں پر مجبور

پی ٹی آئی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین مصالحت کے تمام امکانات ختم ہو چکے ہیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کے شکایتی خطوط نے جہاں عسکری قیادت کو مزید ناراض کر دیا ہے وہیں عمران خان کے خطوط کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں سے جاری بیک ڈور رابطے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق عسکری قیادت کی جانب سے جھنڈی دکھائے جانے کے بعد اب پی ٹی آئی کے پاس حکومت سے بات چیت کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ حکومت سے بات چیت کرنے کی مشروط خواہشات تو کرتی دکھائی دیتی ہے تاہم اب حکومت مذاکراتی عمل سے بھاگتی نظر آتی ہے۔

خیال رہے کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لگاتار خطوط لکھ کر ایک پرانی روایت زندہ کی، جن میں عمران خان نے مبینہ انتخابی دھاندلی، کرپٹ سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے اورادارے کے خلاف بڑھتی عوامی بے چینی بارے رونا رویا تاہم آرمی چیف نے ایک جملے میں عمران خان کے خطوط کا جواب دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ نہ انہیں کوئی خط ملا ہے اور خط موصول ہونے پر بھی وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ آرمی چیف کے جواب کے بعد بانی پی ٹی آئی کی لیٹر ڈپلومیسی اپنی موت آپ مر گئی ہے۔

تاہم مبصرین خطوط کو بانی پی ٹی آئی کی جیل میں بیٹھ کر اپنا سیاسی بیانیہ زندہ رکھنے کی ایک سٹریٹجک چال قرار دیتے ہیں، جس میں آرمی چیف کو براہ راست مخاطب کرکے انہوں نے سیاست میں فوج کے اثرورسوخ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کے خطوط پر فوجی قیادت کے اہانت آمیز ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان سے بات کیلئے تیار نہیں بلکہ خطوط آرمی چیف کو مزید ناراض کر سکتے ہیں۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق عمران خان کے خطوط سیاسی کھیل میں قابل توجہ رہنے کی سٹریٹجی کے علاوہ کچھ نہیں، خطوط کے مواد نے آرمی چیف کو مزید ناراض کرنے کے علاوہ ممکنہ مصالحت کو زیادہ مشکل بنادیا ہے۔

مبصرین کے مطابق خطوط عمران خان کے اس موقف کے عکاس ہیں کہ وہ صرف اصل طاقتور فریق کیساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔آرمی چیف کے نام کھلا خط لکھ کر عمران خان نے طاقتور سٹیک ہولڈر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کے علاوہ عوام کے سامنے اپنا کیس بھی پیش کیا تاہم اس کوشش میں انہوں آرمی چیف کو مزید ناراض کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان کے خطوط بڑھتی مایوسی کی علامت اور اسٹیبلشمنٹ کیساتھ روابط بہتر بنانے کی ایک کوشش ہیں۔تاہم ان خطوط پر ردعمل اہانت آمیز تھا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے دروازے مکمل بند کر دئیے ہیں۔

سیننئرصحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی سپہ سالار کو لکھے جانے والے مکتوب اور پھر ان کے جوابی واضح موقف کے بعد امکان یہ نظر آ رہا تھا کہ شاید پی ٹی آئی پس پردہ روابط کی اپنی پالیسی سے صرف نظر برتتے ہوئے سیاسی طرز عمل کا مظاہرہ کرے گی اور سیاسی قوتوں سے راہ و رسم بڑھائے گی تاکہ اپنے سیاسی کردار اور اپنے لئے راستہ تلاش کر سکے۔تاہم سیاسی حلقوں میں پھر سے ایسی خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ کہ پی ٹی آئی دوبارہ پس پردہ رابطوں کی بحالی کے لئے سرگرم ہے اور سمجھتی ہے کہ پس پردہ رابطوں کا سلسلہ ہی ان کے لئے ریلیف اور نتیجہ خیزی کا باعث بنے گا۔ تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ عسکری قیادت کی جانب سے شٹ اپ کال ملنے کے باوجود آخر پی ٹی آئی پس پردہ رابطوں کی بحالی کے لئے سرگرم کیوں ہے اور کیا اسے کوئی خیر کی امید ہو سکتی ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے پی ٹی آئی حکومت اور سیاسی جماعتوں سے مل بیٹھنے اور مسائل کے سیاسی حل کے لئے تیار نہیں۔

سلمان غنی کے مطابق جہاں تک پی ٹی آئی کے پس پردہ رابطوں کی حکمت عملی کا سوال ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما سمجھتے ہیں انہیں اگر کوئی ریلیف یا سیاسی راستہ ملنا ہے تو انھیں ریلیف صرف پس پردہ قوتوں کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ مسلح افواج کے سربراہ کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے مسلح افواج خود کو اپنے آئینی کردار کی ادائیگی تک محدود رکھنا چاہتی ہیں اور کسی ایسے عمل کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں جس کا آئینی طور پر اختیار نہ ہو ۔

سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ فوجی قیادت کے اس موقف کو پی ٹی آئی کیلئے ایک واضح اور کھلا پیغام قرار دیا جا رہا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت یی سمجھ جائے گی کہ مسلح افواج کسی پس پردہ مفاہمت اور مذاکرات کے لئے تیار نہیں تاہم پی ٹی آئی رہنما اب بھی حکومت سے مذاکراتی عمل کی بجائے بیک ڈور رابطوں پر ہی مصر ہیں۔ سلمان غنی کے بقول فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کی جانب سے آنے والی وضاحت کے بعد پس پردہ رابطوں کا عمل ممکن نظر نہیں آ رہا لہٰذا پی ٹی آئی کے پاس واحد آپشن سیاسی قوتیں اور حکومت ہی ہے۔ تاہم کیا اس حوالہ سے کوئی مثبت پیش رفت ہو پائے گی اس کا فیصلہ آنے والے چند روز میں ہو جائے گا۔

Back to top button