علی وزیر ضمانت ہونے کے باوجود جیل میں کیوں بند ہیں؟

30 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ سے رہائی کے احکامات جاری ہونے کے باوجود ریاستی دباؤ کے باعث پشتون تحفظ موومنٹ کے اسیر رکن قومی علی وزیر بدستور جیل میں ہیں جو کہ ملکی آئین اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ علی وزیر کی رہائی سے انکار کے بعد پی ٹی ایم نے 19 جنوری کو سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے خلاف چھ دسمبر 2020 کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں پی ٹی ایم کی ریلی سے خطاب کے دوران عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے اور سکیورٹی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزام میں پولیس نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت غداری کا ایک مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کیس میں علی وزیر، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین، رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، محمد شفیع اور ہدایت اللہ پشتین سمیت کئی ارکان کو نامزد کیا گیا تھا۔ اندراج مقدمہ کے بعد سندھ پولیس اور محکمہ داخلہ سندھ نے خیبرپختونخوا حکومت سے پشاور میں موجود علی وزیر کی گرفتاری اور حوالگی میں مدد طلب کی تھی، جس کے بعد خیبر پختونخوا پولیس نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 54 سی آر پی سی کے تحت پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد 30 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوسکا اور علی وزیر اب بھی کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔

یاد رہے کہ 30 نومبر 2021 کے روز جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے علی وزیر کی درخواست پر سماعت کے بعد چار لاکھ کے مچلکوں کے عوض انکی ضمانت منظور کی تھی۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے کہا تھا کہ علی وزیر نے اپنی تقریر میں صرف ایک شکایت کی تھی لہٰذا ان کا گلہ دور کیا جانا چاہیے تھا بجائے کہ انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔ جسٹس مندوخیل نے مزید کہا تھا کہ علی وزیر کی جانب سے اداروں پر عائد کردہ ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟ اس موقعے پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں اور کس بھی اور مقدمے میں ان کی ضمانت نہیں ہوئی۔ اس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ’کسی اور کیس میں ضمانت نہیں ہوئی تو کیا ہوا ہم تو انہیں ضمانت دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی وزیر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا تو پھر ان پر متعلقہ دفعہ کیوں لگائی گئی؟ سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ریاست مذاکرات کرکے طالبان شر پسندوں کو چھوڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کل علی وزیر کے ساتھ بھی کوئی معاملہ طے ہو جائے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی معاملات طے کیے جا رہے ہیں جو لوگوں کو شہید کر رہے ہیں، کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو گڈ طالبان اور بیڈ طالبان والا معاملہ لگتا ہے، کیا عدالتیں صرف لوگوں کی ضمانتیں خارج کرنے کے لیے بیٹھی ہیں، کیا عدالتیں لوگوں کو ریلیف نہ دیں۔

نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی باتیں من گھڑت ہیں

تاہم ضمانت منطور ہونے کے ایک ماہ بعد بھی علی وزیر قید میں ہیں۔ اس حوالے سے علی وزیر کے وکیل ایڈوکیٹ قادر خان نے بتایا کہ سپریم کورٹ سے ان کی ضمانت کی منظوری کو ایک ماہ ہو گیا ہے، مگر تاحال کورٹ آرڈر کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اس لیے ہم نے ابھی تک ضمانت کے کاغذات بھی جمع نہیں کروائے ہیں۔ ایڈوکیٹ قادر خان کہتے ہیں کہ اگر اس کیس میں علی وزیر کی ضمانت ہو بھی جائے تو بھی انہیں رہا نہیں کیا جائے گا۔ اس کیس کے علاوہ ان پر پہلے کا بھی ایک اور کیس کراچی کے شاہ لطیف تھانے میں درج ہے، جس میں ان پر حساس اداروں کے خلاف سخت تقاریر کرنے کا مقدمہ درج ہے۔ پولیس نے علی وزیر کی گرفتاری کے چھ، سات ماہ بعد ان کی اس کیس میں گرفتاری ظاہر کی تھی۔ ایڈوکیٹ قادر خان کے مطابق اس کیس میں ضمانت ہونے کے بعد ہی وہ جیل سے باہر آسکتے ہیں۔ ان پر مقدمے میں ویسے تو جو دفعات لگی ہیں، ان تحت سزا عمر قید ہے مگر چونکہ سپریم کورٹ سے اسی نوعیت کے کیس سے ضمانت ہوگئی ہے تو جلد ہی دوسرے کیس میں بھی ضمانت ہو جائے گی۔

دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کو سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت منظور کیے جانے کے باوجود سندھ حکومت رہا نہیں کر رہی ہے۔ کراچی کے پشتون اکثریت والے علاقے سہراب گوٹھ میں پی ٹی ایم کی جانب سے منعقد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم 19 جنوری کو سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دے گی۔ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ دھرنا جلد کر دیا جائے، اس دھرنے کی حتمی تاریخ کا فیصلہ پی ٹی ایم کی مرکزی قیادت کے پانچ دن بعد ہونے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔ منظور پشتین نے ایک مرتبہ پھر الزام لگایا کہ وزیرستان اور دیگر جگہوں پر لوگوں کو جھوٹے مقدموں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان گرفتاریوں اور پی ٹی ایم کے دیگر مطالبات کے لیے جلد اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم گرفتاریوں کے خلاف احتجاج میں اپنے پرانے مطالبات بھول گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے، اسلام آباد مارچ میں تمام مطالبات رکھیں جائیں گے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!