عمران نے کونسی جائیداد فروخت کرکے 98 لاکھ ٹیکس دیا؟

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سال 2018 میں دو لاکھ 82 ہزار روپے اور سال 2019 میں 98 لاکھ 54 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنے کا معاملہ ایک سکینڈل کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اور یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ ان کے ادا کردہ ٹیکس میں ایک برس میں ہزار گنا اضافہ کیسے ہو گیا۔ تاہم اب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے مزید کنفیوژن پیدا کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے ادا کیے گیے ٹیکس میں بڑے اضافے کی وجہ اُن کی پراپرٹی کی فروخت ہے، تاہم فروخت ہونے والی اس جائیداد کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی کچھ جائیداد فروخت کی ہے لیکن انہیں اس بارے میں زیادہ تفصیلات کا علم نہیں۔ فواد کے مطابق وزیر اعظم کے ٹیکس کنسلٹنٹ کی جانب سے فراہم معلومات کے مطابق خان صاحب نے اپنی پراپرٹی فروخت کی جس پر لگنے والا کیپٹل گین ٹیکس ان کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس میں ظاہر ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ انھیں علم نہیں کہ عمران خان نے اپنی کونسی پراپرٹی فروخت کی ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اراکین پارلیمان کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات جاری کی تھیں جس میں دوسرے اراکین پارلیمان کی طرح وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس کی تفصیلات بھی تھیں۔ ان تفصیلات کے مطابق عمران نے ٹیکس ڈائریکٹری 2019 میں اٹھانوے لاکھ سے زائد کا ٹیکس ادا کیا اور اُن کی آمدنی چار کروڑ 35 لاکھ روپے درج تھی۔ اگر اس کا مقابلہ ٹیکس ڈائریکٹری 2018 کے اعداد و شمار سے کیا جائے تو وزیر اعظم نے دو لاکھ 82 ہزار روپے کا ٹیکس ادا کیا تھا جبکہ ٹیکس ڈائریکٹری 2017 میں دی گئی تفصیلات کے مطابق عمران خان کی جانب سے ادا کیا جانے والا ٹیکس ایک لاکھ تین ہزار تھا۔

ایک سال کے اندر ادا کیے جانے والے ٹیکس میں اس بے تحاشہ اضافے کی وجوہات کے حوالے سے گذشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔ ایف بی آر کی فہرست میں دی گئی تفصیل کے مطابق وزیراعظم کی نارمل آمدن تین کروڑ نواسی لاکھ سات سو چوہتر روپے بتائی گئی ہے جبکہ پریزیمپٹو آمدن بائیسں لاکھ اکیاسی ہزار آٹھ سو چھتیسں روپے ہے۔ وزیراعظم نے زرعی اراضی پر 23 لاکھ چونسٹھ ہزار ایک سو پچاس روپے ادا کیے۔
ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجہ کیپٹل ٹیکس گین ٹیکس ہی لگتا ہے جو ان کی جانب سے کسی اثاثے کے فروحت کیے جانے پر ادا کیا گیا ہو گا۔انکا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے ملک کے اندر اثاثے تو موجود ہیں جن میں زرعی زمین، بنی گالہ میں گھر، لاہور میں گھر اور اس کے ساتھ اسلام آباد میں فلیٹس بھی ہیں۔

معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق نے کیپیٹل گین ٹیکس کے بارے میں بتایا کہ پاکستان کے اِنکم ٹیکس قانون کے مطابق کسی بھی جائیداد کو منتقل کرنے پر حاصل شدہ منافع کو کیپیٹل گین کے طور پر ٹیکس کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کیپٹل گین ٹیکس ایسی پراپرٹی پر لگتا ہے جو خریدنے کے چار سال کے اندر فروخت کر دی جائے۔ انھوں نے کہا خرید کر پہلے سال میں فروخت کرنے پر اس ٹیکس کی شرح زیادہ ہے اور پھر اگلے سال پر اس کی شرح گھٹ جاتی ہے۔ تاہم انھوں نے کہا پاکستان میں کیپٹل گین کو

75 برس سے سیکیوٹی پالیسی کے بغیر چلنے والا نیوکلئیر پاکستان

ٹیکس کرنے کا طریقہ پیچیدہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں ریئل سٹیٹ سیکٹر میں اس کا صحیح طریقے سے نفاذ نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کا طریقہ اس لیے پیچیدہ ہے کہ جس قیمت پر کوئی پراپرٹی فروخت ہو رہی ہو اور جو اس کی مارکیٹ ویلیو ہو اس کے درمیان فرق پر کیپٹل گین ٹیکس لگایا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کی جانب سے جاری کی جانے والی ٹیکس ڈائریکٹری بھی مکمل طور پر وضاحت نہیں دیتی کہ جہاں مختلف مد میں حاصل ہونے والی آمدنی اور ان پر وصول کیے جانے والے ٹیکس کی الگ سے تفصیلات موجود ہیں جیسے کہ تنخواہ پر لگنے والے ٹیکس اور دوسری انکم سے حاصل ہونے والے ٹیکس کو الگ سے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ وزیر اعظم کی جانب سے تنخواہ پر ادا کیے جانے والے ٹیکس اور دوسرے ٹیکس کو الگ سے دکھایا جاتا تو آسانی سے پتا چل جاتا ہے کہ زیادہ ٹیکس کہاں سے آیا ہے۔‘

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کے ادا کردہ ٹیکس میں ہوشربا اضافے کی وجہ کسی جائیداد کی فروخت ہے تو اس کی تفصیل سامنے کیوں نہیں لائی جا رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ بقول فواد چوہدری انہوں نے عمران خان کے ٹیکس کنسلٹنٹ سے معلوم کیا ہے کہ وزیراعظم نے کوئی جائیداد بھیجی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس جائیداد کے حوالے سے انہیں کوئی علم نہیں، چنانچہ ان کی یہ گفتگو اس معاملے کو مزید الجھن کا شکار کر رہی ہے۔

Back to top button