عمران کی ہدایت پراعظم سواتی کی آرمی چیف سے رابطے کی ناکام کوشش

اعظم سواتی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سول بالادستی اور فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے بیانیے کی ہوا نکال دی۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اعظم خان سواتی نے حلفیہ انکشاف کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی خواہش پر انھوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ان کے استاد، قریبی دوست حتیٰ کہ صدر عارف علوی کے ذریعے رابطے کی کوشش کی لیکن آگے سے ہمیشہ دروازے بندملے ان کی بارہا کوششوں کے باوجود عسکری قیادت کی جانب سے رابطوں پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا، سوشل میڈیا ٹائیگرز بے وجہ کی ہانکتے ہیں کہ عمران خان مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔

مبصرین کے مطابق اعظم سواتی کے بیان کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی صرف عسکری قیادت کی اس سیاسی مداخلت کے خلاف ہے جو ان کیخلاف ہو جبکہ وہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے مسلسل اسی کوشش میں ہے کہ کسی طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ دوبارہ اسے گود لے لے تاکہ وہ دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹ سکے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور الزام تراشیوں کی وجہ سے فوجی قیادت قطعا بانی پی ٹی آئی پر اعتبار کرنےکو تیار نہیں اسی وجہ سے اعظم سواتی سمیت مختلف رہنماؤں کے آرمی چیف سے براہ راست رابطوں پر بھی عمرانڈو رہنماؤں کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔

خیال رہے کہ اپنےایک حالیہ انٹرویو میں اعظم سواتی نے دعویٰ کیا ہے کہ دسمبر 2022 میں نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان نے مجھے بلا کر کہا میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں، آپ پر مجھے اعتماد ہے، آپ جائیں اور فوجی قیادت سے بات کریں۔ بانی پی ٹی آئی نے مزید کہا فوجی مجھے گالیاں دیتے ہیں اور میرے ساتھی اس پر ہنستے ہیں، اعظم سواتی کے مطابق میں نے عمران خان سے کہا میں عارف علوی اور ساتھیوں سے ملکر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرونگا، بانی پی ٹی آئی نے کہا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس سے کہاں رابطہ کر رہے ہو، اگر آرمی چیف بات کرنا چاہتے ہیں تو میں پہلے دن سے تیار ہوں۔

مبصرین کے مطابق اعظم سواتی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی  ہرصورت حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ بات چیت شروع کرنے کیلئے بے قرار ہے اسی کیلئے عمران خان نے اعظم سواتی اور علی امین گنڈاپور سمیت مختلف پارٹی رہنماؤں کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے لیکن تاحال کسی طرح سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ دوسرا فریق بھی بات چیت کیلئے آمادہ ہے کیونکہ فوج اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ وہ خود کو سیاسی مذاکرات میں شامل نہیں کرے گی اور یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے مسائل بات چیت سے حل کریں۔ فوجی ترجمان کئی مرتبہ واضح الفاظ میں بتا چکے ہیں کہ سیاسی معاملات پر بات چیت سیاست دانوں کا کام ہے اور فوج کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسی پالسیی کی بنیاد پر ہی کچھ عرصہ قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی جانب سے خط موصول ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایسا خط آیا بھی تو وہ اسے پڑھنے کے بجائے وزیراعظم کو بھجوا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی حرکتوں کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں لہذا وہ ایسے معاملات سے دوری برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ ان کا یہ بیان میڈیا کے سوالات کے جواب میں اُس وقت سامنے آیا جب کرپشن سے لیکر دہشت گردی سمیت مختلف الزامات کے تحت اگست 2023ء سے جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین نے جیل سے آرمی چیف کو تیسرا کھلا خط لکھا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اس وقت جس بحران کا شکار ہے اس کا منبع عمران خان خود ہیں۔ ان کی وجہ سے ہی تحریک انصاف آج سیاست کی بند گلی میں پہنچ چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ  عمران خان سیاسی جماعتوں سے بات نہیں کرنا چاہتے جبکہ دوسری جانب عمران خان کی خواہش کے برعکس اسٹیبلشمنٹ ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ مبصرین کے مطابق عمران خان ایک جانب سپہ سالار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف اعظم سواتی اور علی امین گنڈا پور کے ذریعے ترلے کرتے ہیں عمران خان کی اسی دوغلی پالیسی کی وجہ سے پی ٹی آئی کی سیاست کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔

مبصرین کے مطابق اگرچہ عمران خان کا شروع سے ہی یہی موقف ہے کہ وہ حکومت کی بجائے آرمی چیف سے خود بات کرنا چاہتے ہیں اور انھیں یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ فوج کے خلاف نہیں ہیں۔‘تاہم اس کے ساتھ ہی عمران خان نے بدستور فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔  تجزیہ کاروں کے مطابق ’اس وقت حکومت کی بھی کوشش ہے کہ حالات معمول پر آجائیں، اور جو مخالفت کی کہیں سے آواز اُٹھ رہی ہے وہ بھی خاموش ہو جائیں۔ تاہم اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بانی پاکستان تحریکِ انصاف کا ہے کہ وہ کسی طرح سے مخالفت کی بات سے ہٹ کر سیاسی نظام کو چلنے دیں، لیکن عمران خان کسی بھی حوالے سے حکومت سے بات چیت کی بجائے صرف عسکری قیادت سے معاملات آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر دوبارہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں تاہم عسکری قیادت عمران خان کو دوبارہ گود لینے سے انکاری نظر آتی ہے۔‘

Back to top button