ٹی ایل پی پر پابندی: کیا ریاستی سچ بدل گیا یا وقتی غبار ہے؟

وفاقی حکومت نے شدت پسند مذہبی جماعت تحریک لبیک پر پابندی تو عائد کر دی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسا واقعی ریاستی سوچ میں کسی حقیقی تبدیلی کی وجہ سے کیا گیا ہے ، یا محض وقتی حکمتِ عملی کے تحت ایک عارضی حل تلاش کیا گیا ہے۔ ٹی ایل پی پر پابندی کے حوالے سے شکوک و شبہات اس لیے جنم لے رہے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی تحریک لبیک کی خالق تھی۔
لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی اداروں میں واقعی یہ عزم موجود ہے کہ وہ اپنے سابقہ اتحادیوں یعنی شدت پسند مذہبی نیٹ ورکس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 248 سے زیادہ مذہبی جماعتیں اور مختلف فرقوں کے 40 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جن کے فارغ التحصیل طلبا ہر شعبہ زندگی میں اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے تحریکِ لبیک پاکستان کے خلاف حالیہ سخت اقدامات نے کئی اہم اور دلچسپ سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ریاست نے ایک ایسے گروہ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا جسے وہ کبھی اپنا نظریاتی حلیف سمجھتی تھی؟ سوال یہ بھی یے کہ کیا یہ کارروائی انتہا پسندی کے تمام رنگوں کے خلاف ریاستی سوچ میں کسی حقیقی تبدیلی کی علامت ہے، یا یہ محض ایک وقتی حکمتِ عملی ہے؟
عامر رانا ان سوالات کا خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امکان بہت کم ہے کہ طاقت کے مراکز کے اندر کوئی گہری نظریاتی تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ انکے مطابق ایسی تبدیلی کے لیے صرف سیاسی عزم کافی نہیں ہوتا، بلکہ قابلِ اعتبار اور پرکشش نظریاتی متبادل بھی درکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے، نہ تو ہمارا دانشور طبقہ اور نہ ہی ہمارا معاشرہ ابھی تک کوئی متاثر کن متبادل بیانیہ تشکیل دے سکا ہے جو ریاست کو اپنی سوچ تبدیل کرنے ہر مجبور کر سکے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ماڈریٹ اسلام کا ایسا کوئی قابلِ عمل ماڈل نہیں بنایا جا سکا جو یا تو سیکولر جدیدیت کی طرف مائل ہو یا قومی یکجہتی کو یقینی بناتا ہوئے حکمران طبقات کے مفادات سے بھی ہم آہنگ ہو۔ تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کے طاقت ور فیصلہ سازوں نے قومی یکجہتی کے لیے آئینی اتفاقِ رائے کے بجائے مذہبی و قومی بیانیے پر انحصار کیا ہے۔ آئینی بنیاد پر قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سویلین حکمرانی کبھی بھی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں رہی۔
پابندی کا شکار TLP کا نئے نام سے میدان میں آنے کا امکان
عامر رانا کے مطابق، اس وقت اگر ریاست بیانیہ سازی کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کا نتیجہ غالباً بھارت مخالف جذبات سر چڑھ کر بولنے کی صورت میں نکلے گا اور ہمارے ہاں مذہبی شدت پسندوں کا بیانیہ دب جائے گا۔ اس طرح کی تبدیلی پاکستان کی شناخت اور بین الاقوامی شبیہ کو زیادہ معقول، پریکٹیکل اور عالمی حالات کے مطابق ڈھال سکتی ہے۔ یوں پاکستان دنیا کے دیگر مسلم ممالک کی طرح ایک شدت پسند مذہبی ریاست بننے سے بچ جائے گا۔
تاہم، عامر رانا سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ریاست کے اداروں میں واقعی یہ عزم موجود ہے کہ وہ اپنے سابقہ مذہبی اثاثوں سے مکمل ناطہ توڑ دیں؟ طویل عرصے سے ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے اسلامی نظریاتی کونسل نامی سرکاری ادارے کو اب ایسے افراد کی ضرورت ہو گی جو نئے ریاستی بیانیے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں۔ اگر ریاست واقعی مذہبی شدت پسندی پر مبنی بیانیے کا فروغ روکنا چاہتی ہے تو اسے روشن خیال اور ترقی پسند علماء کو اسلامی نظریاتی کونسل کا حصہ بنانا ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہمارا اصل چیلنج مذہبی گروہوں کو قابو کرنے کا ہی نہیں بلکہ ان انتہا پسند نظریاتی وراثتوں کا مقابلے کرنے کا بھی ہے جو کہ ان گروہوں نے ہمارے معاشرے میں پیوست کر دی ہیں۔ انتہا پسند اور فرقہ وارانہ قوتوں کے بیانیے عوامی شعور میں گہرائی تک سرایت کر چکے ہیں، جس نے عوامی رویوں اور سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف سابق وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ کے ایک بیان سے بھی ہو جاتا ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی تحریک لبیک کے نظریے سے اختلاف نہیں، اصل مسئلہ ان کا پرتشدد طریقۂ کار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور عسکری حلقوں میں یہ سوچ اب بھی موجود ہے۔ اسی لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ریاست کی سوچ میں واقعی کوئی حقیقی نظریاتی تبدیلی آ چکی ہے۔
عامر رانا کے مطابق تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ عارضی ثابت ہو گا کیونکہ یہ کسی سٹریٹیجک تبدیلی کے تحت نہیں لیا گیا۔ ان کے مطابق ٹی ایل پی کا بڑھتا ہوا جارحانہ رویہ پنجاب میں پولیسنگ کے عمل کو متاثر کر رہا تھا، کیونکہ نیم پڑھے لکھے وکلا اور مذہبی کارکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اقلیتی برادریوں کے خلاف کارروائیاں کروا رہے تھے۔ ٹی ایل پی کا رویہ پاکستان کی ساکھ کو بھی عالمی سطح پر نقصان پہنچا رہا تھا لہذا اس پر پابندی لگا دی گئی جو عارضی معلوم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی تحریک لبیک کو مستقل طور پر کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کرتی تو اسے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت نہیں بلکہ آئین کے تحت پابندی کا سامنا کرنا پڑتا۔
عامر رانا کہتے ہیں کہ ریاست کی موجودہ حکمتِ عملی بظاہر تحریک لبیک کی سٹریٹ پاور کو غیر مؤثر بنانے پر مرکوز ہے۔ ان کے مطابق، اس حکمت عملی سے وقتی طور پر سکون ضرور ہو جائے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مستقل پالیسی چینج ہے یا محض وقتی بندوبست۔ بظاہر یہ حکمتِ عملی وقتی طور پر مؤثر دکھائی دیتی ہے۔ TLP کی تنظیمی ساخت متاثر ہو چکی ہے، اس کی سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں، اور اس کا اثر کم ہو گیا ہے۔ لیکن ٹی ایل پی ہمارے معاشرے میں جو انتہا پسند مذہبی جذبات ابھار چکی یے وہ آسانی سے دبائے نہیں جا سکیں گے۔
