پابندی کا شکار TLP کا نئے نام سے میدان میں آنے کا امکان

 

 

 

تحریک لبیک پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت پابندی لگائے جانے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹی ایل پی کی قیادت کسی بھی وقت دیگر کالعدم قرار دی جانے والی جماعتوں اور تنظیموں کی طرح ایک نئے نام سے دوبارہ میدان میں آ سکتی ہے۔

 

یاد رہے کہ وفاقی حکومت سال 2001 سے اب تک دہشت گردی، فرقہ واریت اور علیحدگی پسند تحریکیں چلانے والی 80 سے زائد تنظیموں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم قرار دے چکی ہے، تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں میں سے کئی پابندیوں سے بچنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے چند ہی روز میں اپنا نام تبدیل کر کے، یا نئے فلاحی و سیاسی چہروں کے تحت، ایک نئی شکل میں سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ عمل ریاست کی کوششوں کو کمزور کرتا ہے اور شدت پسندی کی جڑوں کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

 

کالعدم تنظیموں کا نئے ناموں سے کام کرنا کوئی نیا رجحان نہیں، یہ تنظیمیں اور جماعتیں ریاستی پابندیوں کو موثر طریقے سے کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی اپناتی ہیں۔ اس حکمت عملی کا سب سے عام طریقہ نام تبدیل کرنا ہے۔ ایک کالعدم تنظیم پر پابندی لگنے کے بعد، اس کے رہنما اور کارکن فوراً ایک نئے نام کے تحت ایک نئی تنظیم کا اعلان کر دیتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک نئی جماعت ہوتی ہے، لیکن اس کی قیادت، مقاصد، بنیادی ڈھانچہ اور کارکنان عموماً وہی پرانی تنظیم کے ہوتے ہیں۔ ایسی مثالوں میں سب سے پہلا نمبر سپاہِ صحابہ پاکستان کا ہے، جب اسے کالعدم قرار دیا گیا تو یہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کے نام سے دوبارہ فعال ہو گئی۔ اس پر دوبارہ پابندی لگی تو اہلِ سنت والجماعت کے نام سے پھر سے میدان میں آگئی لہذا وفاقی حکومت کو اسے پھر سے کالعدم قرار دینا پڑا۔

حکومت نے TLP پر پابندی اٹھانے کا راستہ کھلا کیوں رکھا؟

اسی طرح مولانا مسعود اظہر کی زیر قیادت جیشِ محمد کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس کے کارکنان خدام الاسلام کے نام سے سرگرم ہو گے۔تحریکِ جعفریہ پاکستان کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس کا نیا نام اسلامی تحریک پاکستان رکھ دیا گیا۔ لشکرِ طیبہ پر پابندی عائد کی گئی تو جماعت الدعوہ کے نام سے ایک نئی جماعت کھڑی کر دی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ یہ فلاحی کام کرتی ہے۔ جب جماعت الدعوہ پر پابندی عائد کی گئی تو اسے فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کا نام دے دیا گیا۔ لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے اسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ لیکن حافظ محمد سعید کی زیر قیادت اس جماعت کو ملی مسلم لیگ کا نام دے دیا گیا اور پھر اس نے انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ اس مرتبہ حکومت نے پابندی عائد نہیں کی کیونکہ بنیادی مقصد مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک توڑنا تھا۔

 

یاد رہے کہ 8 برس پہلے 2017 میں فیض حمید کی عسکری نرسری میں تحریک لبیک نامی پودا اگانے کا بنیادی مقصد بھی نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ نون کا بریلوی ووٹ بینک توڑنا تھا تاکہ عمران خان کو سیاسی فائدہ پہنچایا جا سکے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح یہ پودا جب ایک تناور درخت بنا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سر پر ہی جا گرا۔ لہذا اس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

Back to top button