حکومت نے TLPسے پابندی اٹھانے کا راستہ کیسے کھلا رکھا؟

وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی تو عائد کر دی ہے لیکن ناقدین کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کیلئے جانتے بوجھتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کیا گیا ہے تا کہ وقت آنے پر پابندی اٹھانے کا راستہ کھلا رہے؟
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگانے کے لیے الیکشن ایکٹ یا آئینی شق کو استعمال نہیں کیا۔ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے لیے حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کو استعمال کیا ہے۔ اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی لگانے سے تحریک لبیک کے منتخب نمائندے نااہل نہیں ہوں گے اور وہ الیکشنز میں بھی حصہ لے سکیں گے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت نے تحریک لبیک پر ادھوری پابندی لگاتے ہوئے اس کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ خود حکومت بھی اس سلسلے میں الجھن کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کنفیوژن اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ حکومت نے ٹی ایل پی کو الیکشن ایکٹ کی شق 212 یا آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کالعدم قرار نہیں دیا، بلکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کو استعمال کیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تحریک لبیک پر الیکشن ایکٹ یا آئین کے تحت پابندی لگاتی تو اس کی توثیق سپریم کورٹ نے کرنا تھی جس کے بعد تحریک لبیک کا چیپٹر ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اگر کسی تنظیم پر پابندی عائد کی جائے تو اس کی سپریم کورٹ سے توثیق کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ایسا فیصلہ کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے 2021 میں عمران خان کے دور حکومت میں بھی ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ہی کالعدم قرار دیا گیا تھا، لیکن کچھ ماہ بعد تحریک لبیک کیساتھ معاہدہ کرتے ہوئے حکومت نے یہ پابندی ختم کر دی تھی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تحریک لبیک پر آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شق 2 اور 3 کے تحت پابندی لگائی جائے تو پھر وفاقی حکومت پندرہ روز کے اندر ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنے کی پابند ہوتی اور سپریم کورٹ ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں حتمی فیصلہ سنا دیتی۔ تاہم اگر ایسا ہو جاتا تو پھر اس پابندی کو ختم کرنا ناممکن ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی لیے 2021 میں عمران خان حکومت اور اب شہباز شریف حکومت نے بھی دانستہ آئین کے آرٹیکل 17 کو استعمال کرنے کے بجائے انسداد دہشت گردی ایکٹ کا انتخاب کیا، تا کہ پابندی کا فیصلہ واپس لینے کے راستے مسدود نہ ہوں۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پر انسداد دہشت گری ایکٹ 1997 کے سیکشن 11 بی کی شق 1 کے تحت پابندی لگائی گئی یے۔ اس سیکشن کے تحت لگنے والی پابندی کے نتیجے میں ٹی ایل پی کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی قدغن نہیں اور نہ اس کے منتخب نمائندے نااہل ہوں گے۔ اس وقت ٹی ایل پی کا
صرف پنجاب اسمبلی میں ایک ایم پی اے ہے۔ تاہم سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں اس کے کچھ نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دی گئی تنظیم 15 دن میں حکومت کو نظر ثانی کی درخواست دے سکتی ہے۔ چنانچہ یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ اسی ایک مہینے کے اندر ٹی ایل پی کیساتھ کوئی معاہدہ بھی طے پا سکتا ہے، ماضی میں بھی پابندی کے بعد ٹی ایل پی نے عمران حکومت کو نظر ثانی کی درخواست دی تھی، جو مشروط معاہدے کے ساتھ قبول کر لی گئی تھی۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر وفاقی حکومت تحریک لبیک کی نظرثانی کی درخواست مسترد کر بھی دے تب بھی اس کے لئے ریلیف کا دروازہ مکمل بند نہیں ہوتا۔ اس صورت میں وہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے، اگر وہاں بھی شنوائی نہ ہو تو تحریک لبیک سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے مطابق حکومت پابندی کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور اسی لیے ٹی ایل پی کے سربراہ کے خلاف پولیس اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک لبیک کے زیر انتظام چلنے والی 200 سے زائد مساجد کو اوقاف کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم کا نا ابھی فائنل نہیں ہوا : نیئر بخاری
ٹی ایل پی پر جس انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی لگائی گئی ہے، اس کے تحت پچھلے 25 برسوں میں درجنوں تنظیموں، جماعتوں اور فلاحی اداروں کو کالعدم قرار دیا جاچکا ہے۔ تحریک لبیک اس ایکٹ کے تحت پابندی کا شکار ہونے والی 83ویں جماعت ہے۔ انتہا پسند اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز 2001 میں ہوا تھا، جب پاکستان کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کا سامنا تھا۔اس لیے سب سے پہلے لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ 2002 میں جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ، تحریک جعفریہ پاکستان، تحریک اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی سمیت متعدد جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی، 2003 میں القاعدہ، جماعت الفرقان، حزب التحریر اور جماعت الانصار کے خلاف کارروائی کی گئی۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے سے کالعدم قرار دیئے گئے کئی گروہ نئے ناموں کے ساتھ سامنے آگے۔ سپاہ صحابہ، ملت اسلامیہ پاکستان بن گئی۔ تحریک جعفریہ کا نام اسلامی تحریک پاکستان اور جیش محمد ، خدام الاسلام بن گئی۔ تاہم نام بدلنے کے باوجود ان تنظیموں پر دوبارہ پابندی لگا دی گئی تھی۔ پھر 2006 میں بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی کے سبب بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اسکے بعد حکومت نے بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچ ایم ڈی پر پابندی لگا دی گئی۔
تجزیہ نگاروں کے بقول تحریک لبیک بھی نئے نام کے ساتھ خود کو مارکیٹ کر سکتی ہے لیکن اس صورت میں اسے دوبارہ کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
