بلوچستان حملوں کے میڈیا بلیک آؤٹ سے فائدہ ہوا یا نقصان؟

 بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے حالیہ دنوں نوشکی اور پنجگور میں ہونے والے فدائین حملوں کے مین سٹریم میڈیا پر بلیک آؤٹ نے سرکار کی جانب سے میڈیا کی آزادی کے دعوؤں کا پول کھول کر رکھ دیا۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری سطح پر کسی دہشت گردی کے حملے کی تصدیق کرنے اور تفصیلات جاری کرنے میں اتنی تاخیر ہوئی کہ حملہ آور خبر دینے میں بار بار بازی لیتے رہے اور پنجگور حملے میں یہ سلسلہ 72 گھنٹے تک جاری رہا۔

پنجگور اور نوشکی حملے کہ دوران جہاں سرکاری ذرائع کی جانب سے معلومات تاخیر اور متضاد بیانات کا شکار رہیں، وہیں بی ایل اے کی جانب سے معلومات لمحہ بہ لمحہ بغیر تعطل کے جاری ہوتی رہیں، یہاں تک کہ پنجگور حملے کے اختتام کی خبر بھی پہلے حملہ آور تنظیم اور بعد میں سرکاری حکام کی جانب سے جاری کی گئی۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقوں نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کی اطلاعات 2 فروری کو رات آٹھ بجے موصول ہونا شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔

مقامی لوگوں اور صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں رات کے اندھیرے میں فائرنگ کی گرج کو صاف سنا جا سکتا تھا۔ مین سٹریم میڈیا نے ریاستی دباؤ پر اس خبر کا مکمل بلیک آؤٹ جاری رکھا۔

اس سے پہلے کہ ان حملوں کی کوئی سرکاری تصدیق یا تردید آتی، مسلح بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یو بی ایل اے کی جانب سے پریس ریلیز جاری کر دی گئی جس میں نہ صرف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ سکیورٹی فورسز کے خلاف انکی کارروائی اب بھی جاری ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے رات گئے ان حملوں کی تصدیق کی گئی جبکہ وفاقی اور صوبائی وزارت داخلہ کی جانب سے حملوں کی تفصیلات اگلے روز دی گئیں اور ان میں بھی اس حملے میں ہونے والی ہلاکتوں بارے متضاد بیانات سامنے آئے۔ عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حملے میں سات جوان شہید ہوئے ہیں جبکہ بی ایل اے کا دعوی تھا کہ وہ سو سے زائد سکیورٹی فورسز کے لوگ مار چکے ہیں۔

شہباز شریف حکومت کیخلاف ان ہائوس تبدیلی کیلئے متحرک

حملوں کے دوران نوشکی اور پنجگور میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے میڈیا کو زمینی حقائق تک رسائی اور مشکل ہو گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مقامی میڈیا میں ان حملوں سے متعلق زیادہ کوریج نظر نہیں آئی جس کی شکایت بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر کرتے نظر آئے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان حملوں کا نہ صرف مین سٹریم میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا گیا بلکہ انہیں اخبارات میں بھی دبا دیا گیا۔

بی بی سے گفتگو میں دفائی تجزیہ کار اعجاز حیدر کا کہنا تھا ہمیں بلوچستان میں ہونے والے حملوں کی تفصیلات آئی ایس پی آر سے نہیں مل رہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ حملے دہشت گردوں اور ان کے سپانسرز کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں جس کا مقصد ہمیں نقصان پہنچانا ہے۔

لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے حملے کی سرکاری تصدیق اور تفصیلات جاری کرنے میں اتنی تاخیر کی گئی ہو۔ نوشکی اور پنجگور میں حملوں سے کچھ دن قبل 25 فروری کی رات بلوچستان کے علاقے کیچ میں ایک فوجی چوکی پر حملے میں دس اہلکاروں کی ہلاکت کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھی۔ 26 جنوری کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے اس حملے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کی جبکہ سرکاری ذرائع نے اس خبر کی تصدیق واقعے کے تقریباً تیس گھنٹے بعد 27 جنوری کی رات کو کی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی علی رضا رند کا کہنا ہے کہ نوشکی حملے کی تصدیق کے لیے جب انھوں نے مقامی پولیس اور کمشنر آفس سے رابطہ کیا تو ان کے پاس اس حملے سے متعلق تفصیلات نہیں تھیں۔ ‘ہم اس طرح کے واقعات میں مقامی ذرائع سے خبریں بھی نہیں چلا سکتے کیونکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ جب تک آئی ایس پی آر تصدیق نہ کرے اور پریس ریلیز جاری نہ کرے ہم خبر فائل نہ کریں۔

علی رضا رند کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں ویسے بھی بہت سے لوگ تفصیلات دینے سے کتراتے ہیں۔ ‘ایک ایسے وقت میں جب مقامی لوگوں اور افسران سے نہ کوئی معلومات مل رہی تھیں اور رابطہ کرنا مشکل ہو رہا تھا، وہیں بی ایل اے اپنے ٹیلی گرام چینل کے ذریعے ویڈیو، آڈیو اور پریس ریلیز کی شکل میں مسلسل معلومات شیئر کر رہی تھی۔ اور ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں یہ معلومات سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگیں۔ انکا کہنا تھا کہ سرکاری اور مستند میڈیا کی جانب سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے بی ایل اے کا بیانیہ سوشل میڈیا پر زیادہ پھیلنے لگا۔

بی ایل اے کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں آئی ایس پی آر کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی کہ پنجگور میں حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا کہ بی ایل اے کے حملہ آور اب بھی ایف سی ہیڈ کوارٹرز کے اندر موجود ہیں اور انہوں نے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی ایل اے کی جانب سے ایسی آڈیوز بھی جاری کی گئیں جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مبینہ طور پر ایف سی ہیڈ کوارٹرز کے اندر موجود حملہ آوروں کی ہیں جو تازہ صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں۔

بی ایل اے کی تیاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسکی جانب سے حملوں بارے معلومات تین زبانوں انگریزی، بلوچی اور اردو میں جاری کی جا رہی تھیں۔ اس کے علاوہ حملہ آوروں کی تعداد، نام اور تصاویر کے ساتھ ساتھ ’آپریشن گنجل‘ کہلائے جانے والے حملے کی مکمل تفصیلات بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔ اسی اثنا میں سوشل میڈیا پر متعدد اکاؤنٹس جہاں علاقے کی تصاویر، نقشے اور سیٹلائٹ تصاویر شیئر کرتے رہے تھے وہیں بہت سے غلط معلومات کو بھی شیئر کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات شیئر کرنے والے بہت سے اکاؤنٹس نے اپنا مقام انڈیا بتایا۔

پاکستانی مین سٹریم میڈیا پر ان حملوں کے بلیک آؤٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے سے ریاست پاکستان کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اس عمل سے فیک نیوز زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی پاکستان کی قومی سلامتی کی پالیسی میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کو خطرہ ملکی اور غیر ملکی عناصر کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات سے بھی ہے، اس کو ناکام بنانے کے لیے ایسی پالیسی بنائی جائے گی جو ملکی سطح پر رابطوں اور معلومات کے تبادلے کو بہتر بنائی گی۔

تاہم سکیورٹی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے حساس صوبے بلوچستان کو آج بھی ‘انفارمیشن بلیک ہول‘ کہا جاتا ہے، یعنی ایک ایسا مقام جس میں سے کوئی معلومات باہر نہیں آتیں۔ اور حالیہ حملوں کے دوران مستند معلومات کے فقدان نے اس دعوے کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔

Back to top button