کیا ایران بھی پاکستان کی طرح اسرائیل کو سرپرائز دے سکتا ہے؟

اسرائیل کی جانب سے ایران کی نیوکلیئر اور فوجی تنصیبات پر حملوں اور ایرانی فوجی قیادت کو مارنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک میں سے فوجی طاقت کے اعتبار سے کون سا ملک زیادہ تگڑا ہے اور کیا ایران اپنے دشمن کو ویسا سرپرائز دے سکتا ہے جیسا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے اپنے سے طاقتور انڈیا کو دیا تھا۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے۔ اکتوبر 2024 میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کرتے ہوئے وہاں تک اپنے میزائل پہنچا کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ ایران عرصہ دراز سے اپنے جس میزائل پروگرام پر کام کر رہا ہے اس میں کافی ترقی ہو چکی ہے اور اب اسرائیل ایران کی میزائیل رینج میں آ چکا ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا اور جدید سمجھا جاتا ہے۔ سال 2022 میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس ‘3000 سے زیادہ’ بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے تو کوئی حتمی اطلاع نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل موجود ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کسی ملک کے پاس جدید ترین میزائلوں کا ذخیرہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرتے ہوئے جو تباہی مچائی ہے اس میں بنیادی کردار اس کے میزائلوں کا ہے۔ اسرائیل نے ایرانی نیوکلیئر اور فوجی تنصیبات تباہ کرنے کے علاوہ ایرانی فوجی قیادت اور اس کے سائنس دانوں کو بھی میزائل سسٹم سے ہی نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل نے میزائلوں کا یہ ذخیرہ گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اشتراک سے تیار کیا۔ اس کے باوجود اسرائیل اب بھی کئی ملکوں سے میزائل خریدتا ہے۔

اسرائیل کے مشہور میزائلوں میں ڈیلائلا، جبرایئل، ہارپون، چریکو، لورا اور پوپیئی میزائیل شامل ہیں۔
لیکن اسرائیل کے دفاعی نظام کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو ہر طرح کے میزائل یا ڈرون حملے کو بروقت روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیل غزہ سے داغے گے حماس کے میزائیلوں اور لبنان سے داغے گے حزب اللہ کے راکٹوں کو ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کر کے آج تک اپنا لوہا منواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینیئر اوزی روبن نے کے مطابق آئرن ڈوم کی طرح کا دنیا میں کوئی اور موئثر دفاعی نظام موجود نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک بہت کارآمد شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اسرائیل کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑا ملک ہے جس کی آبادی اسرائیل سے دس گنا زیادہ ہے۔ لیکن آبادی کے اس فرق سے یہ اندازہ لگانا قطعی درست نہیں ہو گا کہ ایران فوجی اعتبار سے اسرائیل سے زیادہ طاقتور ملک ہے۔ اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کرتا ہے اور اس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔ اگر ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالرز ہے تو اسکے مقابلے میں اسرائیل کا دفاعی بجٹ 24 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔
جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے وہیں اس کی حاضر سروس فوج بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔ ایران کے فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے فوجیوں کی تعداد صرف ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔

اسرائیل کے پاس جو برتری ہے وہ اس کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور بہترین طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔ اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 جنگی ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ ایران کے پاس 186 جنگی طیارے اور 13 جنگی ہیلی کاپٹرز ہیں۔دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں لیکن ایرانی بحری فوج کے پاس 101 جہاز ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس 67 جہاز موجود ہیں۔ ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعد سے اپنے میزائل سسٹم اور ڈرونز پر زیادہ کام کیا ہے اور شارٹ اور لانگ رینج میزائل اور ڈرونز بنائے جو اس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے حریفوں کو بھی مہیا کیے ہیں۔حوثی باغیوں کے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی معلوم ہوا تھا کہ وہ ایرانی ساخت کے تھے۔

ایران کے میزائلوں میں شہاب ون میزائل ہے جس کی رینج تین سو کلومیٹر ہے جبکہ اسی کا دوسرا ورژن شہاب ٹو پانچ سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرا میزائل شہاب تھری دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700 کلومیٹرز تک مار کرنے والا ذوالفقار میزائیل اور 750 کلومیٹرز تک مار کرنے والا قائم ون میزائیل شامل ہیں۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح -110 ہائپر سونک میزائل ہے جو 500 کلومیٹرز تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگرچہ ایران کے پاس چھ لاکھ سے زیادہ فوج موجود ہے لیکن دوسرے ملک میں جا کر ایک گوریلا آپریشن کرنے کا زیادہ تجربہ اسرائیل کا ہے اور وہ ہمیشہ ہی اس میں کامیاب ہوا ہے۔

Back to top button