کیا ہنگامہ کرنے والے 26 پی ٹی آئی MPAs کی رکنیت منسوخی جائز ہے؟

پنجاب اسمبلی میں ایک بار پھر سیاسی محاذ آرائی نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے ضیا کے آمرانہ دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی خواہش پر پنجاب اسمبلی میں غل غپاڑہ کرنے والے 26پی ٹی آئی ارکان پر نہ صرف 15 اجلاسوں کے لیے ایوان کے دروازے بند کر دئیے ہیں اور ان کے ایوان میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے بلکہ ان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن میں ریفرنسز بھیجنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ لیگی رہنما، سپیکر پنجاب اسمبلی کے پی ٹی آئی اراکین کی معطلی کے فیصلے کو قانون کی بالادستی قرار دے رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی حلقوں کے مطابق ملک احمد خان کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی کے علاوہ سیاسی انتقام کی ایک بدترین مثال ہے، دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں لڑائیاں اور احتجاج ہوتے ہیں لیکن اس طرح اتنی بڑی تعداد میں اراکین کو معطل نہیں کیا جاتا۔ حقیقت میں سپیکر نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو خواہش پر اپوزیشن کی زبان بندی کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ آسانی سے عوام دشمن بجٹ منظور کروایا جا سکے لیکن حکومت کو اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایسے رویے پر راکین کو معطل کرنے اور اسمبلی کارروائی سے روکنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس کا آغاز سنہ انیس سو پچاسی میں بغیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں اس وقت ہوا تھا جب اسپیکر میاں منظور احمد وٹو کے زیر صدارت اجلاس میں صدر جنرل ضیا الحق پر اعتراض کرنے پر فیصل آباد سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے منتخب رکن فضل حسین راہی کو باہر نکال دیا تھا۔
اس کے بعد اس میں شدت جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسپیکر محمد افضل ساہی کے زیر صدارت اجلاس میں آئی، جس میں دو روز کے اندر یکے بعد دیگرے نو اراکین کو معطل کیا گیا۔ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ ن کے دور میں بھی رہی، لیکن اس کی شدت کم رہی۔ مگر پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایک بار شدت آئی اور اٹھارہ اراکین کو اس وقت کے اسپیکر سبطین خان نے معطل کردیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اراکین کو معطل کرنے کی شدت والے مواقع پر اسپیکر محمد افضل ساہی اور محمد سبطین خان کے ادوار میں چودہری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ ایس کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن ایوان میں آئے یا نہ آئے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ ان کے دور میں پچاس کے قریب اپوزیشن اراکین کیخلاف مقدمہ درج کروانے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اپوزیشن کے 26 ارکان کو 15 اجلاسوں کے لیے پنجاب اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔ اس حوالے سے سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان کی ایوان میں ہنگامہ آرائی، نعرے بازی، دھکم پیل اور دستاویزات پھاڑنے کے باعث یہ تادیبی کارروائی کی گئی ہے جبکہ جلد ان بدتمیز پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی نا اہلی کے لیے ریفرنسز بھی الیکشن کمیشن کو بھیجے جائیں گے۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے اسمبلی میں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ اپوزیشن ارکان نے نہ صرف سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کیا تھا بلکہ سپیکر کے مسلسل روکنے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بارے نازیبا الفاظ بلند کرتے ہوئے انھیں جانوروں سے تشبیہہ دے کر نعرے بازی بھی کی تھی۔ جبکہ جرمانے کا سامنا کرنے والے سولہ اراکین نے بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ پر بجٹ دستاویزات بھی پھینکی تھیں۔ ہلڑ بازی کے دوران اسمبلی کے مائیک وغیرہ بھی ٹوٹ گئے تھے جس پر اسپیکر نے واضح کیا تھا کہ وہ اس کی کیمرے سے ریکارڈنگ دیکھ کر ذمہ داراں کے خلاف کارروائی کریں گے اور اب سپیکر پنجاب اسمبلی نے پی ٹی آئی کے 26 اراکین کو معطل کر دیا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں 16 جون کے بجٹ اجلاس میں توڑ پھوڑ کے الزام پر پی ٹی آئی کے 10 ارکان اسمبلی پر 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کر دیا ہے۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کا کہنا ہےکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی ایوان کے کسٹوڈین بنیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ڈکٹیشن مت لیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم حکومتی ہتھکنڈوں سے نہیں ڈریں گے اور اپنا احتجاج آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔‘‘
پی ٹی آئی اراکین کی معطلی بارے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ایوان میں اپوزیشن کا احتجاج اور ان کے خلاف کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے: ”خود مسلم لیگ ن بھی میاں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب اسمبلی میں ایسے ہی احتجاج کرتی رہی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن ارکان کے احتجاج پر الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
کیا چوہدری نثار علی خان اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کے لیے تیار ہیں ؟
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے صدر ملک آصف نسوانہ نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں احتجاج کی پاداش میں پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی معطلی ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ ملک میں عدالتوں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے بعد ان ارکان اسمبلی کی آواز کو بھی دبایا جا رہا ہے: ”ایسا توکبھی مارشل لاء دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔ ایسے اقدامات سے یہ لوگ ایکسپوز ہو رہے ہیں اور ان سے عوام کی نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے دی گئی سزا کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالتی دکھائی دے رہی ہے تاہم پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ کو اس صورتحال کا مورد الزام ٹھہرانا سمجھ سے بالاتر ہے اوریہ کہ یہ الزام لگانے والوں کا وہ وقت بھی سامنے رکھنا چاہیے جب ایک کرنل پارلیمنٹ اور عدلیہ کو کنٹرول کر رہا تھا: ”حقیقت میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا پی ٹی آئی ارکان کو معطل کرنے کا فیصلہ پاکستان کی زوال پذیر جمہوریت میں کیے جانے والے ایک زوال پذیر احتجاج پر ایک غلط فیصلہ ہے۔‘‘مبصرین کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک سخت سزا ہے اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیش کواحتجاج بھی قانون کے دائرے میں ہی رہ کر کرنا چاہیے اور ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے جس میں ایوان کی کارروائی کو جاری رکھنا ممکن ہی نہ رہے۔ ان کے بقول۔ ”اپوزیشن اگر غصے میں آ بھی جائے تو حکومت کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔‘‘