کپتان سے اچھی کرپٹ ٹیم واقعی کوئی نہیں بنا سکتا تھا؟

بہت کہا جاتا تھا کہ کپتان عمران خان سے اچھی ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا وقت نے ثابت بھی کر دیا کہ عمران خان نے اپنی جو سیاسی ٹیم بنائی یہ وہ ٹیم تھی جس نے چوکھا رنگ چڑھایا، جس نے کرپشن کو ہنر بنایا، جس نے ملک اور معیشت کی کمر پر لات ماری دی مگر کپتان کی لاج رکھ لی۔غور تو کریں۔ کیا عثمان بزدار جیسے کا انتخاب کوئی اور کر سکتا تھا؟ کیا فرح گوگی کے علاوہ کوئی اور عثمان بزدار کو ’گھگو گھوڑا‘ بنا سکتا تھا؟ اسد عمر کی لیاقت کا پول بھی کھل گیا۔ شاہ محمود بھی خارجہ میں ناکام ہو گئے، فواد چوہدری بس گالی دینے کے لیے رہ گئے۔ علیم خان کو خان نے بقلم خود جیل میں ڈلوا دیا۔ اور جہانگیر ترین کو نااہل کروا دیا۔ ان خیالات کا اظہار سینئر سیاسی تجزیہ کار عمار مسعود نے اپنے ایک کالم میں کی ہے . وہ لکھتے ہیں کہ بہت پہلے سنا تھا کہ کپتان سے بہتر کوئی ٹیم نہیں بنا سکتا۔ پہلے یقین نہیں آیا مگر کپتان نے اپنی لاجواب پرفارمنس سے پوری قوم کو یقین دلا دیا۔ پہلے ہم سمجھے کہ کپتان کی اصل ٹیم جاوید میانداد، وسیم اکرم اور انضمام الحق ہیں لیکن کپتان نے انیس سو بانوے کے ورلڈ کپ کا سارے کے سارا کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈال لینے کے بعد قوم کو یہ درس دیا کہ باقی ٹیم تو ’خواہ مخواہ‘ ہے، اصل میں ورلڈ کپ تن تنہا کپتان نے جیتا ہے۔ یعنی کپتان نے اپنی بنائی ہوئی ٹیم کا خود ستیاناس کر دیا۔ تب اہل عقل کو پتہ چلا کہ کپتان کی اصل ٹیم یہ نہیں ہے لیکن نعرہ اس وقت بھی یہی معروف تھا کہ کپتان سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ یہی ہے وہ جوہر شناس جو مٹی میں سے گوہر کو پہلے تلاش کرتا ہے پھر اس کی تراش کرتا ہے اور پھر بے لوث ہو کر اس کو خراج پیش کرتا ہے . بانوے کی کرکٹ ٹیم کے بہت سے کھلاڑی آج تک اس خراج کے منتظر ہیں۔ پھر کپتان نے فیصلہ کیا کہ ایک کینسر ہسپتال بنایا جائے۔ ساری قوم کپتان کے ساتھ ہسپتال بنانے میں جت گئی۔ ایک دفعہ پھر نعرہ بلند ہوا کہ کینسر ہسپتال کے لیے کپتان سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ عورتوں نے اپنے زیور بیچے، بچوں نے پاکٹ منی جمع کرائی۔ اہل ثروت نے زمین خان کے نام کی، کسی نے کروڑوں دان کیے، کسی نے لاکھوں جمع کرائے لیکن کپتان کی لازوال ٹیم سے ستر کروڑ روپے اکٹھے نہ ہوئے جو اس وقت ہسپتال کی لاگت تھی۔ عین اس موقع پر میاں نواز شریف سے درخواست کی گئی۔ انہوں نے پچاس کروڑ روپے اور زمین شوکت خانم ہسپتال کے لیے عطیہ کی۔ اس عطیے کے بغیر شوکت خانم ہسپتال معرض وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔ نواز شریف نے جب اعلان کیا تو سب کو گمان ہوا کہ اب کپتان کی اصل ٹیم سامنے آ چکی ہے۔ اب سیاست میں عمران خان، نواز شریف کے احسانات کا بدلہ چکائے گا، دونوں ساتھ مل کر وطن کی فلاح کے لیے کام کریں گے لیکن یہاں پھر کپتان نے عوام کو سرپرائز دیا۔ عمار مسعود بتاتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے محسن نواز شریف کو گالی دی، اس کی شخصیت کو تختہ مشق بنایا، اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے احسانات کے بغیر شوکت خانم کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا تھا۔ اس وقت ہمیں پتہ چلا کہ یہ وہ ٹیم نہیں جس کا اس عالم کو انتظار تھا۔ یہ تو بس جزوقتی کام تھا۔ اصل کارہائے نمایاں بعد میں واشگاف ہوں گے لیکن اس وقت بھی کپتان کی چال بازی پر یہی منترا پڑھا گیا کہ ٹیم بنانا بس کپتان ہی کو آتا ہے۔ اس سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ لوگ سوچتے رہے کیا اپنے محسن کے خلاف بات کرنے سے ٹیم بنتی ہے؟ یہ معمہ کچھ عرصہ بعد مزید کھلا۔ دوہزار اٹھارہ کا موسم آ گیا۔ خان صاحب کا جنون جوبن پر تھا۔ ہر محکمہ خان کے خدمت میں جٹا ہوا تھا۔ خان کی مسکراہٹ سے میڈیا کی صبح اور خان کے جلال سے شام ہوتی تھی۔
محکمہ بھی اس شدت سے ایک پیج پر تھا کہ اس کی مثال اس چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ۔ اسد عمر کپتان کے دست راست تھے اور معیشت کے مرد بحران کہلاتے تھے۔ شاہ محمود خارجہ امور کے چیمپئن تھے، علیم خان پنجاب کی سیاست کے شہزادے تھے، جہانگیر ترین خان کے یار غار تھے۔ فواد چوہدری خان کے ہر لمحہ ہم رکاب تھے۔ بتایا گیا خان نے سب سے اچھی ٹیم بنا لی ہے۔ دو سو ماہرین اس میں شامل ہیں۔ یہ اسد عمر وغیرہ تو دیگ کے چند دانے ہیں۔ دیگ ہی سونے کی ہے اور سارے چاول ہی سنہری ہیں کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کپتان برسر اقتدار آ گیا۔ اور پھر اسد عمر کی لیاقت کا پول کھل گیا۔ شاہ محمود خارجہ میں ناکام ہو گئے، فواد چوہدری بس گالی دینے کے لیے رہ گئے۔ علیم خان کو خان نے بقلم خود جیل میں ڈلوا دیا۔ جہانگیر ترین کو نااہل کروا دیا۔ کپتان کی ٹیم بکھر سی گئی۔ ساری دلیلوں کا دلیہ بن گیا لیکن کہا اس وقت بھی یہی گیا کہ کپتان سے بہتر ٹیم کوئی بنا سکتا۔ پھر ہر دور کی طرح کپتان کا دور حکومت بھی ختم ہو گیا۔ برسوں تک مثبت رپورٹنگ کرنے والے میڈیا نے کھل کر سانس لیا۔ عجیب عجیب سے اسکینڈل سامنے آنے لگے۔ کپتان کے وسیم اکرم پلس کی نااہلی کے چرچے ہونے لگے، فرح گوگی کا نام چاروں اطراف گونجنے لگا، بشریٰ بی بی کی فرنٹ مین معروف ہونے لگی۔ بڑے پراپرٹی ٹائیکون کی صاحبزادے پر الزام آنے لگے۔ تب خلقت خدا کو سمجھ آئی کہ وہ کون سی ٹیم تھی جس کا انتطار ہو رہا تھا۔ عمار مسعود کہتے ہیں کہ غور تو کریں۔ عثمان بزدار جیسے کا انتخاب کوئی اور کر سکتا تھا؟ فرح گوگی کے علاوہ کوئی اور عثمان بزدار کو ’گھگو گھوڑا‘ بنا سکتا تھا۔ فرح کے سارے کام عمران خان کے گھر سے ہو رہے تھے۔ گھر میں کپتان اس سارے دھندے سے بے خبر بھی نہیں تھے کیونکہ اس کی خبر تو ’ادارے‘ کی جانب سے دے دی گئی تھی۔ تو جناب! یہ تھی وہ ٹیم جس نے چوکھا رنگ چڑھایا، جس نے کرپشن کو ہنر بنایا، جس نے ملک اور معیشت کی کمر پر لات ماری دی مگر کپتان کی ٹیم کی لاج رکھ لی۔