چندہ جمع کرنے والے خیراتی ادارے منی لانڈرنگ میں ملوث نکلے

اندرون و بیرون ملک غریبوں، یتیموں اور مستحقین کی مدد کے نام پر چندہ جمع کرنے والے بڑے بڑے خیراتی و رفاہی ادارے منی لانڈرنگ میں ملوث نکلے۔ مختلف این جی اوز کے اس کالے دھن کو سفید کرنے کے مکروہ دھندے میں ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کو بڑے کریک ڈاؤن کا ٹاسک دے دیا ہے۔ جس کے بعد آنے والے دنوں میں بڑی مچھلیوں کے گرفت میں آنے کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ناقدین کے مطابق خیراتی اداروں کا منی لانڈرنگ میں ملوث ہونا صرف مالی بدعنوانی تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اعتماد، ریاستی ساکھ اور قومی سلامتی کیلئے بھی ایک دھچکا ہے۔بڑے خیراتی ادارے کا منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کا حصہ بننا ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ جیسے ادارے اس مکروہ دھندے کا برقت سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟
ذرائع کے مطابق رفاہی اور خیراتی اداروں کو ملنے والے فنڈز کے حوالے سےسامنے آنے والے بڑے مالیاتی سکینڈل نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جس کے بعد حکومت نے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حقائق سے پتا چلتا ہے کہ درجنوں معروف اور سینکڑوں چھوٹی بڑی این جی اوز کے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنے اور منی لانڈرنگ کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ جس میں بڑے کمیشن کے عوض اربوں روپے اندرون اور بیرون ملک منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں نجی بینکوں کی سہولت کاری اور سٹیٹ بینک کی کمزور نگرانی بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔تاہم ذرائع کے بقول وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کو اس وقت سخت تشویش لاحق ہوئی جب حساس اداروں کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ چند بڑے خیراتی و رفاہی اداروں کے اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ کی ایک اہم میٹنگ میں فیصلہ ایف آئی اے کو فوری طور پر اس نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
این جی اوز کے ذریعے منی لانڈرنگ کے طریقہ واردات کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ خیراتی اداروں کے اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کرپشن، سمگلنگ، ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے حاصل شدہ کالا دھن مختلف طریقوں سے خیراتی اداروں کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کے بدلے یہ ادارے یا ان کے ذمہ داران مخصوص شرح کے مطابق کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہی رقوم یا تو مقامی طور پر قانونی کاروبار میں لگائی جاتی ہیں یا پھر بین الاقوامی سطح پر ’’ڈونیشن‘‘ کے نام پر بیرون ملک منتقل کر دی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس پورے نظام میں نجی بینکوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ بیشتر بینکوں نے اپنے صارفین کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ سے براہِ راست مختلف فلاحی اداروں کے فنڈز میں رقوم منتقل کر سکتے ہیں۔اس سہولت کی وجہ سے کوئی بھی شخص بڑے پیمانے پر فنڈز فلاہی و خیراتی اداروں کے اکاؤنٹس میں منتقل کر سکتا ہے اور بینک اس پر سوال نہیں اٹھاتے۔ بینکنگ سسٹم میں موجود اس خامی نے منی لانڈرنگ کے دروازے کھول دیئے ہیں۔
ذرائع کے بقول کے مطابق اس سکینڈل کے سامنے آنے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر خیراتی اداروں کے اکاؤنٹس میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی ٹرانزیکشنز کی نگرانی کیوں نہیں کی گئی جبکہ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کے باوجود اب تک این جی اوز کے فنڈز کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے کوئی سخت اور جامع میکنزم متعارف کیوں نہیں کروایا جا سکا۔ ناقدین کے مطابق سٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسیوں نے غیر اعلانیہ طور پر منی لانڈرنگ کو آسان بنا دیا ہے۔ تاہم اب حکومت نے ایف آئی اے کوباقاعدہ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
تاہم ایف آئی اے ذرائع کے مطابق این جی اوز کے خلاف کریک ڈاؤن پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ماضی میں بھی اس طرح کی نمائشی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ تاہم ان میں بڑے ادارے اور بااثر شخصیات ہمیشہ بچ نکلتی ہیں۔ جبکہ چھوٹی اور غیر معروف این جی اوز کیخلاف کارروائی کرکے انہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے۔ اگر اس بار بھی یہی سلسلہ دہرایا گیا تو اس سے نہ صرف حکومتی ساکھ متاثر ہوگی۔ بلکہ پاکستان کے مالیاتی نظام پر عالمی سطح پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے۔ مبصرین کے مطابق حکومت کو اس مکروہ دھندے کی مکمل روک تھام کیلئے محض اعلانات یا نمائشی کارروائیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے ٹھوس اور شفاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر پاکستان میں رفاہی و خیراتی ادارے منی لانڈرنگ اور کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائیں گے۔
