چین نے انڈیا سے جنگ کے دوران پاکستان کو مدد کیسے فراہم کی ؟

بھارتی فوج کے ایک سینیئر کمانڈر نے حالیہ جنگ میں پاکستانی برتری تسلیم کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اسکی بنیادی وجہ پاکستان کو انڈین فوجی تنصیبات بارے لائیو معلومات کی فراہمی تھی اور یہ اہم ترین ذمہ داری چینی سیٹلائٹ نیٹ ورک سر انجام دے رہا تھا۔
انڈیا کے ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے ایک تقریب سے خطاب میں بتایا کہ انڈین فوج نے آپریشن سندور کے دوران کون سے سبق سیکھے۔
انھوں نے کہا کہ ‘پہلا سبق تو یہ کہ پاکستان کے ساتھ جنگ میں انڈیا کو ایک نہیں بلکہ تین دشمنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالیہ جنگ میں جنگی جہازوں سے لے کر ڈرونز تک، چین اپنے دوست پاکستان کو تمام تر ممکنہ مدد فراہم کر رہا تھا۔ اگر آپ اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کو 81 فیصد اسلحہ اور آلات چین نے ہی فراہم کیے ہیں۔
لیفٹینینٹ جنرل راہل سنگھ کا کہنا تھا کہ چین کے علاوہ حالیہ جنگ کے دوران ترکی نے بھی پاکستان کی مدد میں اہم کردار ادا کیا، ترکی پاکستان کو بیراکتر نامی ڈرون تو پہلے سے فراہم کر رہا تھا لیکن اس کے علاوہ نئے ڈرونز بھی استعمال ہوئے جنہیں آپریٹ کرنے والے ماہر بھی موجود تھے۔ انھوں نے چین کی سیاسی اور جنگی حکمتِ عملی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ادھار کی چھری سے وار کرنا قرار دیا۔ یعنی چین نے خود شمالی سرحد پر وار کرنے کی بجائے اپنے ہمسائے کی مدد کی تا کہ وہ اپنے دشمن کو بالواسطہ نقصان پہنچا سکے۔
بھارتی جرنیل کا کہنا تھا کہ چین نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں اپنے ہتھیاروں کو پاکستان کے ذریعے استعمال کر کے ٹیسٹ بھی کر لیا۔ یہ جنگ چین کے لیے ایک لائیو لیب کی طرح تھی، ہم نے اس جنگ سے جو سبق سیکھا وہ یہ ہے کہ کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز، کمپیوٹرز، انٹیلیجنس اور سرویلینس فوجی آپریش کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہمیں ابھی بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی جرنیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز کی بات چیت ہو رہی تھی تو پاکستان ہمیں بتا رہا تھا کہ آپ کے جنگی جہاز فلاں فلاں علاقوں میں جارحیت کے لیے تیار کھڑے ہیں اس لیے آپ انھیں وہاں سے واپس بلا لیں، دراصل پاکستان کو انھیں چین کے سیٹلائٹ سسٹم سے لائیو معلومات مل رہی تھیں، لہٰذا اس محاذ پر ہمیں تیزی سے اقدامات لینے ہوں گے۔
خیال رہے کہ جب بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر نے گذشتہ ماہ پاکستان کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا سے اس بارے میں پوچھا تھا کہ چین کی جانب سے پاکستان کو کتنی مدد حاصل تھی تو انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈین کارروائی کے جواب میں پاکستان نے جو کارروائی کی وہ اپنے وسائل سے کی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘جیسا کہ انڈیا کے پاس بھی روسی، فرانسیسی ساختہ ہتھیار تھے۔ پاکستان نے بھی غیر ملکی ہتھیار ضرور استعمال کیے لیکن انڈین طیاروں کو گرانے کے لیے جو بھی وسائل اور حکمت عملی استعمال کی گئی وہ پاکستان کی اپنی تھی۔’
اس کے بعد عرب نیوز سے ایک انٹرویو میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف سے جب چین سے ملنے والی سیٹلائٹ مدد بارے پوچھا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہے کیونکہ ہماری افواج اس معاملے میں خاصی ایڈوانس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کی مدد بھی ہمارے لیے بہت اہم تھی، اور چین ہمارا بہت اچھا دوست ہے لیکن بھارت کے خلاف فتح ‘میڈ ان پاکستان’ تھی۔
پاکستانی ایئرفورس کے ترجمان کی جانب سے پریس بریفنگز کے دوران یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی الیکٹرانک وارفیئر کی صلاحیتوں کے باعث انڈین طیاروں کی جیمنگ عمل میں آئی تھی۔ اس
انڈین ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کہا ہے کہ ‘ہمیں الیکٹرانک وارفیئر کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔’ اس کے علاوہ انھوں نے بہتر ایئر ڈیفنس نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہماری شہری آبادی کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اسرائیل کے طرح آئرن ڈوم اور دیگر فضائی دفاعی نظام سے اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کی سہولت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ہمارا ملک بہت بڑا ہے اور ان کی تعمیر میں بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اس حوالے سے نئے حل ڈھونڈنے ہوں گے۔’
مائیکروسافٹ کا پاکستان سے اپنا دفتر ختم کرنے کا فیصلہ ، 5 ملازمین فارغ
بھارتی جرنیل نے کہا کہ شکر ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران ہماری آبادی والے علاقوں کو خطرہ نہیں تھا۔ لیکن اگلے راؤنڈ میں، ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ ایئر ڈیفنس، زیادہ سے زیادہ جوابی راکٹس، آرٹلری اور ڈرون نظام کو تیار کرنا ہو گا لہٰذا ہمیں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔’