مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ PTI کیخلاف آنے کا امکان

سپریم کورٹ میں زیر سماعت مخصوص نشستوں کے کیس کی اب تک کی سماعت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدالتی فیصلہ ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے خلاف ہی آئے گا اور حکمراں اتحاد کو دوبارہ دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو حکومت کو ستائیسویں ترمیم لانے میں آسانی ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ کے سامنے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں اس کیس کا فیصلہ پاکستانی سیاست کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق اب تک کی سماعت سے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنا کیس دوبارہ بار جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر قومی اسمبلی کی خصوصی نشستوں میں سے بیشتر دوبارہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جھولی میں چلی جائیں گی۔ یوں ایک بار پھر حکمراں اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور حکومت کو بغیر کسی بیساکھی کے اپنی مرضی کی آئینی ترامیم لانے کا موقع مل جائے گا۔

حکومتی حلقوں کے مطابق ایسی صورت میں ستائیسویں ترمیم لانے کی کوشش کی جائے گی تا کہ جو شقیں چھبیسویں ترامیم کے ذریعے منظور نہیں کروائی جا سکی تھیں، انہیں منظور کرا لیا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حکومت کو مزید استحکام مل جائے گا اور اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت گرانے کو کوششیں دم توڑ جائیں گی ۔

یاد رہے کہ ہ چھبیسویں آئینی ترامیم کے ابتدائی مسودے میں 56 شقیں تجویز کی گئی تھیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کی مزاحمت کے سبب ان میں سے 22 شقیں منظور کی جا سکی تھیں۔ منظور کردہ شقوں کے مطابق اب چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہو گا۔ بارہ رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں عمرانڈو جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے تھے۔

اس طرح دیگر آئینی شقوں میں قرار دیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال ہو گی جبکہ عمر کی حد 65 سال ہو گی۔ پاس ہونے والی ترمیم کے مطابق 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی وزیر اعظم کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام صدر کو ارسال کریں گے۔ مذید یہ کہ وزیر اعظم یا انکی کابینہ کی تجویز پر کوئی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ کمیٹی میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ ہوں گے ۔ سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ یہ ترمیم در اصل ہائیکورٹ کے ان حجز کو دائرے میں لانے کے لیے کی گئی تھیں، جن کے بارے میں حکومت سمجھتی تھی کہ ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دے دیا گیا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ بھی طے کر لیا گیا تھا کہ از خود نوٹس لینے کا اختیار آئینی پیچز کے پاس ہو گا اور آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی پیچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ یہ اسی شق کا نتیجہ ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالنے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کا معاملہ اب سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے زیر سماعت ہے۔ اگر چھبیسویں ترمیم نہ ہوتی تو یہ کیس سپریم کورٹ کا روٹین کا بنچ سن رہا ہوتا جہاں پی ٹی آئی کے ہم خیال ججز کی اکثریت ہے۔

باخبر حلقوں کے مطابق 26 ویں ائینی ترمیم کے وقت حکومت ایک الگ آئینی عدالت کا قیام چاہتی تھی۔ تاہم اسکی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور اسے صرف آئینی بچر کے قیام پر اکتفا کرنا پڑا۔ اب اگر حکمراں اتحاد دوبارہ خصوصی نشستیں حاصل کر لیتا یے تو اسکے نتیجے میں اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ لہذا حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ ستائیسویں ترمیم کے ذریعے ایک باقاعدہ آئینی عدالت قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والے سویلین عناصر کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے لیے بھی آئینی ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ اگر چہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کا عمل درست قرار دے چکی ہے۔ تاہم ترمیم کی صورت میں اسے آئینی چھتری مل جائے گی۔

Back to top button