کیا حنیف عباسی نے خواجہ آصف کو نواز کے اشارے پر ٹھوکا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ نون لیگ کے وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی کی اپنے سینئیر کولیگ خواجہ آصف پر لفظی گولہ باری کے بعد ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا خواجہ آصف بھی ‘کرما‘ کا شکار ہو گئے ہیں اور کیا وہ نون لیگ سے اپنی وابستگی برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟
رؤف کلاسرا اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ تیس سال سے زائد عرصہ تک خواجہ آصف نواز شریف کے سیاسی ہیمر رہے۔ لیکن اب شاید شریف برادران کو لگتا ہے کہ خواجہ آصف بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کے کسی کام کے نہیں رہے لہٰذا انہوں نے حنیف عباسی کو ان کے خلاف لانچ کر دیا ہے۔ اگلے روز حنیف عباسی نے خواجہ آصف کی کافی مٹی پلید کی اور یہ الزام لگایا کہ وہ کرپٹ بیوروکریسی پر تنقید کی آڑ میں دراصل شہباز شریف اور مریم نواز کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ رؤف کلاسرا کے بقول خواجہ آصف کرما پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ جو کچھ وہ برسوں تک دوسروں کے ساتھ کرتے رہے‘ آج وہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ صاحب وہی روٹ لیں گے جو چودھری نثار‘ جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی نے لیا اور پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی؟ یا پھر خواجہ صاحب ڈھلتی عمر کا تقاضا سمجھ کر شریف خاندان کو اپنی وفاداری کا نیا حلف دیں گے کیونکہ شریف خاندان میں کسی قسم کی بغاوت کبھی برداشت نہیں کی جاتی۔ کلاسرا کے مطابق خواجہ آصف کے ساتھ اسمبلی میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو وہ اپنی 35 برس پہ محیط سیاسی زندگی میں دوسروں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ آج وہ حنیف عباسی ‘ جو 2007ء میں جماعت اسلامی چھوڑ کر (ن) لیگ میں شامل ہوئے تھے‘ اس شخص کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جس کے والد خواجہ صفدر بھی مسلم لیگی تھے۔
خواجہ صفدر بعد میں جنرل ضیا کے ساتھ ملے تو بھی مسلم لیگ کا نشان ساتھ رہا۔ ان کی وفات کے بعد انکے بیٹے خواجہ آصف نے سیاست جوائن کی تو وہ بھی والد کی طرح مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ تب نواز شریف مسلم لیگ کو لیڈ کر رہے تھے۔ ان دنوں نواز شریف نوجوان تھے اور بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف پنجاب میں مزاحمت کا نشان بن کر ابھر رہے تھے۔ یوں انہیں چودھری نثار‘ شاہد خاقان عباسی‘ جاوید ہاشمی اور خواجہ آصف جیسے نسبتاً نوجوان افراد کی کھیپ مل گئی۔ جیسے بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے پارٹی‘ ان کے دوستوں اور اپنے ‘انکلز‘ سے جان چھڑائی تھی‘ ویسے ہی نواز شریف نے بڑی سمجھداری سے 1990ء کے الیکشن کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ اور صدر اسحاق خان کے منصوبے کو ناکام بنایا اور مصطفی جتوئی کے بجائے خود وزیراعظم کے امیدوار بن گئے۔ یہ کرشمہ کیسے ممکن ہوا‘ اس کی پوری تفصیلات پاکستان میں صرف ایک ہی بندے کے پاس ہیں جس کا نام میجر (ر) عامر ہے‘ جو اُس وقت آئی ایس آئی میں جنرل حمید گل کے ساتھ اس پورے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے‘ بلکہ یوں کہیں کہ جنرل اسلم بیگ کے پورے منصوبے کو ناکام بنا رہے تھے۔
رؤف کلاسرا کے مطابق جنرل ضیا نے اپنے بچوں کو سیاست کیلئے تیار نہیں کیا تھا۔ نواز شریف جنرل ضیا کے انتقال تک چار‘ پانچ سال وزیراعلیٰ رہ کر سیاست کی چالاکیاں سمجھ چکے تھے بلکہ جنرل ضیاالحق ہی نے ان کی تربیت کی تھی۔ رہی سہی کسر جنرل جیلانی‘ جنرل حمید گل‘ میجر عامر اور دیگر نے پوری کر دی‘ جنہوں نے نواز شریف کو اپنا اثاثہ سمجھا۔ لاعجاز الحق میں وہ صلاحیت نہ تھی جیسی نواز شریف میں تھی‘ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اسلام آباد ہوٹل میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو سے پارٹی کی صدارت چھینی۔ بندہ اپنی فطرت پر زندگی بسر کرتا ہے اور اعجاز الحق کی فطرت میں سیاسی چالاکیاں نہیں تھیں لہٰذا ان کے والد کی سیاسی وراثت نواز شریف لے اڑے۔ اعجازاکحق شکر کریں کہ نواز شریف نے جنرل ضیا کی صرف سیاسی وراثت چھینی ورنہ ضیا الحق تو نواز شریف کواپنا بیٹا کہتے تھے اور چاہتے تو ضیا کی جائیداد میں سے بھی حصہ مانگ سکتے تھے۔
نواز شریف کی ٹیم میں سے چودھری نثار‘ خواجہ آصف‘ جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان نے انہیں تین دفعہ وزیراعظم بنتے دیکھا۔ کبھی نواز شریف نثار اور خواجہ کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ ان دونوں نے قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ہمیشہ ٹف ٹائم دیا۔ نواز کے پاس جاوید ہاشمی‘ خواجہ آصف اور نثار کی شکل میں وہ میزائل تھے جنہوں نے پہلے پیپلز پارٹی اور بعد میں پرویز مشرف کی ناک میں دم کیے رکھا۔ لیکن پھر نواز شریف کو لگا کہ یہ سب ان سے کچھ زیادہ ہی بڑے ہو رہے ہیں، لہذا پارٹی کے اندر ہی دھیرے دھیرے گروپنگ اور لڑائیاں شروع کرا دی گئیں۔ 2002ء میں پہلے جاوید ہاشمی اور چودھری نثار میں پھڈا ہوا کہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کون ہو گا۔ چودھری نثار اپوزیشن لیڈر بنائے گئے تو دونوں میں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پھر اگلی لڑائی خواجہ آصف اور چودھری نثار کے مابین ہوئی۔ پھر خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی لڑائی ہوئی۔ آج خواجہ آصف اور حنیف عباسی آمنے سامنے ہیں۔
کلاسرا کہتے ہیں کہ جاوید ہاشمی محسوس کرتے تھے کہ انہیں جان بوجھ کر عابد شیر علی اور خواجہ آصف کے ہاتھوں سبق سکھایا جاتا ہے۔ چودھری نثار کو بھی یہی لگا کہ خواجہ آصف ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے۔ باقی سب پارٹی میں ان سے دب اور ڈر کر رہتے تھے لیکن خواجہ آصف آگے سے ڈٹ جاتے تھے۔ شریف برادرز جب بھی اپنی پارٹی کے اندر کسی ہیوی ویٹ کو اس کی اوقات پر لانے کا سوچتے تو ان کی آنکھ ہمیشہ خواجہ پر پڑتی کیونکہ ان سے بہتر دھلائی کرنے کا فن اور کسی کو نہیں آتا۔ یہ بات آج بھی تسلیم شدہ ہے کہ خواجہ سے ذیادہ جوشیلی‘ کراری اور تلخ تقریر کوئی نہیں کر سکتا اور بہت کم لوگ ان کے سامنے ٹھہر سکتے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں کئی بڑے بڑے سیاسی بتوں کا اپنی لفاظی سے ایسا دھڑن تختہ کیا کہ وہ لوگ دوبارہ کھڑے نہ ہو سکے۔ لیکن وقت اور عمر کے ساتھ وہی خواجہ آصف‘ جو پارٹی قیادت کے کہنے پر پارٹی کے اندر اور باہر سب کی زبانی دھلائی کرتے تھے‘ آج خود کو اسی جگہ محسوس کررہے ہیں جہاں کبھی دوسرے سیاستدان ہوتے تھے‘ اور شاید وہ عجیب محسوس کررہے ہوں۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی نثار‘ جاوید ہاشمی‘ شاہد خاقان اور دیگر کیلئے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ وہ پارٹی چھوڑ جائیں اور یہ حالات پیدا کرنے میں خواجہ آصف کا بڑا ہاتھ تھا۔ آج خواجہ آصف سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ اگر حنیف عباسی نے ان کو اسمبلی میں اسی طرح رگڑا لگایا ہے جیسے وہ کبھی نواز شریف کے کہنے پر دوسروں کو لگایا کرتے تھے‘ تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے۔ میاں صاحب کو اب اپنی پارٹی کے اندر حنیف عباسی کی شکل میں ایک نیا سیاسی ہتھوڑا مل گیا ہے جو خواجہ آصف کی ٹکر کا ہے۔ اب انہیں خواجہ آصف کی ضرورت نہیں رہی۔ واضح رہے کہ انڈر ورلڈ کی لغت میں ہتھوڑا ہا ہیمر اس بندے کو کہا جاتا تھا جسے کوئی مافیا ڈان اپنے مخالفین کو سیدھا کرنے کی ذمہ داری سونپتا تھا۔ خواجہ آصف شاہد بھول گئے کہ شریف خاندان کسی بھی صورت اپنی جماعت کے باغی کو معاف نہیں کرتا۔
