کیا 27 ویں ترمیم سے وفاق صوبوں کے اختیار چھیننا چاہتا ہے؟

 

 

 

اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں کہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر کام کر رہی ہے جس کا بنیادی مقصد 2010 میں صدر زرداری کے دور میں ختم کی جانے والی اٹھارویں ترمیم کو بحال کرنا ہے تاکہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے گئے اختیارات واپس لیے جا سکیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے تاکہ انہیں چلانا آسان ہو جائے۔

 

تاہم پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے تعلق رکھنے والی اہم حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ یہ دونوں خواہشات فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تو ہو سکتی ہیں لیکن شہباز حکومت ایسی ترامیم لانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی کسی ترمیمی مسودے پر کام ہو رہا ہے۔  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ برس جب چھبیسویں آئینی ترمیم لائی جا رہی تھی تو پہلے حکومت تردید کرتی رہی اور کہتی رہی کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت ہی نہیں، لیکن پھر نہ صرف دو تہائی اکثریت کے لیے نمبرز پورے ہو گئے بلکہ ایسی آئینی ترمیم لائی گئی کہ سارے عدالتی نظام کا ڈھانچہ ہی بدل گیا، آئینی عدالتوں کے قیام کے بعد سے عمرانڈو ججز کھڈے لائن لگ چکے ہیں، یعنی چھبیسویں آئینی ترمیم نے اپنے وہ تمام اہداف پورے کئے جس مقصد کیلئے یہ لائی گئی تھی۔ اب ستائیسویں ترمیم کے حوالے سے خبریں زور پکڑ رہی ہیں، جہاں چھبیسویں ترمیم نے حکومت کو مضبوط اور محفوظ بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا وہیں ستائیسویں آئینی ترمیم سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ مستقبل میں ون پیج کو متاثر کر سکتی ہے، وجہ یہ ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں سب سے اہم معاملہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ریورس کرنا بتایا جا رہا ہے، لیکن یہ ترمیم پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے مل کر کی تھی، اس کا مقصد وفاق کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنا تھا۔

 

یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے گورننس کے سٹرکچر کو بڑے پیمانے پر تبدیل کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے عسکری حلقوں کا یہ موقف رہا ہے کہ صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے ایما پر کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم پاکستان میں گورننس کے مسائل کی بڑی وجہ ہے، عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے وفاق کے بڑے اختیارات صوبوں کے حوالے کر تو دیئے گئے مگر اس کے باوجود صوبے اہم شعبوں میں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ نے پاکستان کی معیشت کیلئے مسائل پیدا کئے ہیں، لہذا اس قومی ایوارڈ کیلئے رائج معیار کو تبدیل کرنا ضروری ہے، فوجی حلقوں کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس عوام کو ڈیلیور کرنے کا مارجن ختم ہو چکا ہے کیونکہ تمام اہم معاملات انتظامی یونٹس کے پاس چلے گئے جو اپنی اہم ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد متعارف کروائے گئے نظام کے تحت وفاق ٹیکس اکٹھا کر کے صوبوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور پھر اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے باہر سے قرض لیتا ہے۔

 

عسکری حلقوں کا اعتراض ہے کہ اس قرض اور اس پر سود کی ادائیگی کی ذمہ داری صرف وفاق کی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اب وفاق قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے اور صوبے صرف خرچ کرنا جانتے ہیں، صحت، تعلیم، زراعت، کھیل اور بہبود آبادی وفاق سے صوبوں کے پاس جانے کے بعد ان اہم شعبوں کی صورتحال بدترین ہوچکی ہے، 716 ارب روپے کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لیتی ہے مگر یہ رقم ہر سال وفاق نے ادا کرنی ہوتی ہے۔ فوجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں واٹر ایمرجنسی کے حالات پیدا ہو چکے ہیں، ڈیموں کی فوری تعمیر کیلئے اربوں ڈالرز کی اشد ضرورت ہے مگر موجودہ نظام کے تحت یہ ذمہ داری وفاق نے قرض لے کر نبھانی ہے، پاک بھارت کشیدگی کے بعد ملک کے دفاعی اخراجات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے مگر اس معاملے میں وفاق اپنی آمدنی صوبوں کے حوالے کر کے خود قرضوں کا محتاج ہے، ایسے میں اہم سٹرکچرل تبدیلیاں ناگزیر ہو چکی ہیں۔

 

اسلام آباد میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید 27 ویں ترمیم کا بنیادی مقصد صرف مستقل آئینی عدالتوں کا قیام ہے لیکن اب یہ اطلاع بھی آ رہی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نئے صوبے بنانے کے لیے بھی آئینی ترمیم پر غور کر رہی ہے۔ بھائی لوگوں کا موقف ہے کہ پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے، انکا کہنا ہے کہ صوبوں کی موجودہ ہیت اور حجم ملک میں گورننس کے نظام کو کسی صورت نہیں چلا سکتا، پاکستان کا ایک ایک صوبہ رقبے یا آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بیسیوں ممالک سے بڑا ہے، اس وقت ملک میں بیڈ گورننس کی بڑی وجہ صوبوں کا غیر حقیقی سائز اور سٹرکچر ہے جس میں تبدیلی نا گزیر ہے، عسکری حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان بھر میں ڈویژنز کی سطح پر نئے انتظامی یونٹس بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ستائیسویں آئینی ترمیم میں نئے انتظامی یونٹس بنائے جانے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب حکومتی حلقوں کا اصرار ہے کہ نہ تو پیپلز پارٹی اور نہ ہی نواز لیگ ایسی کسی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دے گی۔

Back to top button