انڈو پاک روایتی جنگ میں ڈرونز کے نئے اور خطرناک باب کا آغاز

جنوبی ایشیا میں جوہری طاقت کے حامل دو ہمسائیہ ممالک کے درمیان فضائی جنگ چھڑنے کے بعد سیز فائر کا اعلان تو ہو چکا لیکن اس دوران دونوں اطراف سے ہونے والے ڈرون حملوں کو دہائیوں پرانی روایتی پاک بھارت دشمنی میں ایک نیا اور خطرناک موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
خاموشی سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلنے والے ڈرونز نظروں سے اوجھل اپنے اہداف کو درست نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہازا اب بھارت اور پاکستان میں سے جو بھی ملک ڈرون جنگ کی صلاحیت پر عبور حاصل کر لے گا وہی خطے کا حکمران ہو گا۔ پاکستانی فوجی ترجمان کے مطابق انڈیا نے پاکستان میں 84 اسرائیلی ساختہ ڈرونز بھیجے جنہیں کہ تباہ کر دیا گیا۔پاکستان کی جانب سے ان ڈرونز کو مختلف طریقوں سے گرانے جانے کا دعوی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے دعویٰ کیا تھا ان ڈرون سٹرائیکس کے لیے پاکستان میں کئہ دفاعی ریڈار سسٹم ناکارہ بنائے گئے جن میں سے ایک لاہور میں
یاد رہے کہ لیزر گائیڈڈ میزائل اور ڈرون جدید دور کے میدان جنگ کا ایک۔لازمی حصہ بن چکے ہیں جن کی مدد سے عسکری کارروائیوں کی افادیت اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ڈرونز کی مدد سے فضائی حملوں کے لیے اہداف کا درست طریقے سے تعین کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان پر سنائپر گن فٹ ہو یا ان میں بارود بھرا ہو تو پھر ان کی مدد سے اہداف کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ڈرونز کو دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو دبانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ دوسرے ملک کی فضا میں داخل ہو کر دشمن کے ریڈار کا پتہ چلا سکتے ہیں اور پھر اِن ریڈارز کو اینٹی ریڈی ایشن میزائل یا پھر کسی اور ڈرون کی مدد سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرونز کے ذریعے لڑی گئی جنگ روایتی جنگ کے مقابلے میں بہت سستی ہوتی ہے۔ انکے مطابق ٹارگٹ اور ٹرگر کرنے کی دوہری صلاحیت ڈرون کو اہم بناتی ہے کیونکہ یہ لڑاکا طیاروں کو خطرے میں ڈالے بغیر دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیو کی جانب سے پاکستان بھیجے جانے والے اسرائیلی ساختہ پاروپ ڈونز کا استعمال نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا کی جنگی حکمت عملی اب مہنگے اور خاص طور پر ہدف کو نشانہ بنانے والے حملوں کی طرف بڑھ رہی ہے جو جدید جنگوں میں لوئٹرنگ میزائلز کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ہیرون نامی ڈرون کو انڈیا امن اور جنگ دونوں کے دوران فضا کی بلندی میں اپنی آنکھوں کے طور پر استعمال کرتا ہے اور 18 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے، یہ 300 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے اور سات ہزار میٹر کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے حال ہی میں امریکہ سے ’پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے کے لیے چار ارب ڈالرز کا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ ڈرون مسلسل 40 گھنٹے تک 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس کے حصول سے انڈیا کی ڈرونز کی صلاحیت میں کافی اضافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ انڈیا ’اس سورام‘ صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس کے تحت ایک بہت بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ڈرون بھیج کر دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا جاتا ہے جس کے بعد لڑاکا طیاروں کو دراندازی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
لاہور سے دفاعی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بتایا کہ ’پاکستان کے پاس موجود ڈرونز کی صلاحیت وسیع اور متنوع ہے جس میں غیر ملکی اور مقامی سطح پر تیار شدہ ڈرون شامل ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے پاس ’تقریبا ایک ہزار ڈرونز موجود ہیں جن میں چینی سی ایچ فور اور ترکی کے بیراکتر آقنجی کے علاوہ مقامی براق اور شاہپر ڈرون شامل ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستان نے لائٹرنگ میونیشن کی صلاحیت بھی حاصل کر لی ہے۔ اعجاز حیدر کے مطابق ’پاکستانی فضائیہ تقریبا ایک دہائی سے اس صلاحیت کو اپنے نظام میں شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔‘ ان کے مطابق ایک اہم جزو ایسے ’ونگ مین ڈرون‘ ہیں جو لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ڈرونز کا استعمال پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں یہ ایک نیا موڑ ہے، لیکن یہ روس اور یوکرین کی جنگ سے مختلف ہے۔ ان کے مطابق روس اور یوکرین کی جنگ میں ڈرونز کو عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار حاصل ہو چکا ہے اور جاسوسی سمیت اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہزاروں ڈرون استعمال کیے جاتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا یے کہ ’لڑاکا طیاروں یا بھاری میزائلوں کے بجائے ڈرونز کا استعمال ایک کم تر عسکری راستہ ہے۔ ان کے مطابق ڈرون کم اسلحہ لے کر جا سکتے ہیں تو یہ ایک محدود کارروائی ہوتی ہے۔ تاہم اگر یہ کسی وسیع فضائی کارروائی کا آغاز ہوں تو پھر معاملہ بدل جاتا ہے۔‘
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے تنازعے میں میدان جنگ کو مکمل بدلنے والے ڈرونز کا پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں محدود اور علامتی کردار رہا ہے۔ بھارت کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار منوج جوشی کے مطابق ’ہم جو ڈرون جنگ دیکھ رہے ہیں یہ زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے اور شاید یہ ایک بڑے تنازع کا آغاز ہو۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ تنازعہ کم ہونے یا بڑھنے، دونوں کا اشارہ ہو سکتے ہیں کیوںکہ دونوں کا امکان موجود ہے۔ چنانچہ ہم ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ یہ تنازع کیا رُخ اختیار کرتا ہے۔