مبالغہ آرائیاں!

تحریر: عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ

کچھ عرصے سے ٹی وی شوز اور اخباری انٹرویوز میں یار لوگ بہت مضحکہ خیز دعوے کرتے ہیں اور وہ بغیر کسی تحقیق کے من وعن ناظرین اور قارئین تک پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ دعوے درج ذیل ہیں۔

میں نے 9ہزار کتابیں لکھی ہیں۔میں نے ٹی وی کے 4ہزار ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔میں نے پچاس ہزار آپریشن کئے ہیں۔میں نے 29ہزار دنگل جیتے ہیں۔سترلاکھ لوگوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا ہے۔

چونکہ یار لوگ اس طرح کے دعوے بے حد مبالغے کے ساتھ کرتے ہیں لہٰذا میں نے بھی مبالغے سے کام لیا ہے اور ان کے دعوئوں کا ’’کینوس‘‘ ذرا وسیع کر دیا ہے تاہم بنیادی حقیقت اپنی جگہ ہے اور وہ یہ کہ ان لوگوں کی عمروں کو اگر دنوں میں تقسیم کیا جائے اور ہر روز ان کے کھاتے میں ایک کام ڈال دیا جائے جس کا انہیں دعویٰ ہے تو ان کے عظیم کارناموں کو سمیٹنے کے ضمن میںدن کم پڑ جائیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کمپیئر یا انٹرویو لینے والا ان کے دعوے کے حوالے سے ان کا ’’ریکارڈ‘‘ لگانے کی بجائے ان کیلئے تالیاں بجوا دیتا ہے جس سے شہ پاکر آئندہ انٹرویو دینے والے اپنے پیشروئوں سے بھی بڑے دعوے کرنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ناظرین اور قارئین کی ایک بڑی تعداد ان مضحکہ خیز دعوئوں پر یقین بھی کر بیٹھتی ہے۔ جعلی لوگوں کی اس پذیرائی کے بعد کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ قدآور کہلانےکیلئے کوئی قدآور کام بھی کرے جبکہ کام دعوئوں سے بھی چل سکتا ہے….!

کیا اب برطانیہ پاکستان کا درد سمجھے گا؟

 

چلئے…!یہ تو پھر بھی قدرے بے ضرر قسم کی کارروائی ہے جس کا بنیادی مقصد تاریخ میں اپنا مقام بنانے سے زیادہ وقتی شہرت حاصل کرنا ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک کام جو ہو رہا ہے وہ تاریخ کو مسخ کرنے کا ہے جب بھی کوئی حکومت ناگہانی طورپر اللہ کو پیاری ہوتی ہے ’’پروفیسرقینچی‘‘ قسم کے مورخ ہاتھ میں قینچی پکڑتے ہیں اور اخبارات میں شائع شدہ جھوٹی سچی خبروں کو کاٹ کر ایک کتاب مرتب کرتے ہیں جس میں بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی منطق کے الزامات کی گندگی کا ٹوکرا جانے والے حکمرانوں پر انڈیل دیا جاتا ہے۔اسی طرح کوئی ایک صاحب مثلاً میں پاکستان کے کسی خاص دور کی تاریخ لکھنے بیٹھتا ہوں اور جو بات چاہتا ہوںکسی بڑی شخصیت سے منسوب کرتا چلا جاتا ہوں اور کتاب کے آخر یا حاشیوں میں کوئی مستند حوالہ بھی درج نہیں کرتا مگر اگلے روز اخباروں میں میری اس کتاب میں سے اقتباسات جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئے ہوں گے۔ اس کے بعد میرے جیسا کوئی اور ’’مورخ‘‘ میری کتاب کے حوالوں کو اپنی ضرورت کیلئے مستند بنائے گا اور یوں تاریخ کا چہرہ دن بدن مسخ ہوتا چلا جائے گا….!

صرف یہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ خاصا دراز ہے کوئی اخبار میرا انٹرویو کرتا ہے میں اس میں آج کے حکمرانوں گزشتہ حکمرانوں اپوزیشن کے سیاستدانوں یا ادیبوں شاعروں میں سے کسی پر بھی جو الزام لگانا چاہوں بآسانی لگا سکتا ہوں اور مجھے یہ ڈر بھی نہیں ہو گا کہ کل اس کی تردید سامنے آئے گی کیونکہ کام کرنے والے لوگ اگر تردیدی بیانات کے چکر میں ایک دفعہ پڑ جائیں تو پھر وہ سوائے تردیدیں کرنے کے اور کوئی کام نہیں کرسکتے۔اس کے نتیجے میں وہ الزام ان شخصیات پر چپک کر رہ جائے گا ،جو اس کی زد میں آئی تھیں بلکہ بعد کا مورخ میرے ایسے ’’ثقہ‘‘ شخص کے حوالوں کو سند کے طور پر پیش کرے گا اور یوں میری دال روٹی تو چلتی رہے گی لیکن جب کوئی مستند مورخ ہمارے رویوں کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا اسے سمجھ نہیںآئے گی کہ وہ ہمیں کس نام سے یاد کرے۔

ہماری قوم کی سوچ گوناگوں مسائل کی وجہ سے منفی ہو کر رہ گئی ہےاس کی اتنی ذلت کی گئی ہے کہ اب وہ کسی صاحب عزت کو صاحب عزت نہیں رہنے دینا چاہتی۔اس منفی رویئے سے فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو دوسروں پر غلاظت پھینک کر بیک وقت منفی سوچ والوں کی تسکین کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں اور کوئی ٹھوس کام کئے بغیر محض چونکانے کے عمل سے خود کو نمایاں کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔

میرے ذہن میں اس صورتحال کا کوئی علاج نہیں ہے سوائے اس کے کہ ذرائع ابلاغ ایسے لوگوں اور ان کے قینچی مارکہ کام کو پروجیکٹ نہ کریں نیز عوام بھی ہر الزام اور ہردشنام پر آمناو صدقنانہ کہیں بلکہ دیکھیں کہ کہنے والا کون ہے اس کی کریڈیبیلٹی کیا ہے اور اس کے بیان کو حالات وواقعات سپورٹ کرتے ہیں یا نہیں ؟اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارے دلوں میں مایوسیاں اپنا گھر بنالیں گی ہمیں اپنےسائے پر بھی اعتبار نہیں رہے گا اور ہم ایک دوسرے کے سامنے تلواریں سونت کر کھڑے ہو جائیں گے شاید ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے ’’میرےول تک سجنا‘‘کی خواہش اتنی شدید نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے قومی مفاد کو بھی پس پشت ڈال دیں۔

اور اب معاملہ یہیں تک محدود نہیں اس لاف زنی کی زد میں اللہ اور اس کے پیارے محبوب ﷺبھی آنا شروع ہو گئے ہیں بعض اولیااللہ سے ایسی روایات منسوب کی جاتی ہیں جن کی مبالغہ آرائی اور کذب بیانی سے معاذاللہ، اللہ اور رسول ﷺکا مرتبہ ان کے برابر یا کم تر دکھایا جاتا ہے ۔مردوں کو زندہ کرنا،اللہ کے ان برگزیدہ بندوں سے منسوب کیا جاتا ہے کئی ایک کو تو معراج کے دوران انہیں حضور ﷺ کے پہلو بہ پہلو بیان کیا جاتا ہے اس سے آگے کی باتیں کرنا میرے قلم کے بس میں نہیں بس آج اسی پر اکتفا کریں ۔

Back to top button