8 فروری کے پاور شو کی ناکامی: کونسے PTI لیڈرز کیخلاف ایکشن ہو گا؟

 پی ٹی آئی کے 8 فروری کے پاور شو کی ناکامی کے بعد پارٹی میں جاری بلیم گیم میں شدت آ گئی ہے، جہاں ایک طرف یوم سیاہ ناکام ہونے پر پی ٹی آئی رہنما ایک دوسرے کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب نااہل یوتھیے رہنماؤں کی چھٹی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے جبکہ کئی یوتھیوں نے پارٹی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے سیاسی گوشہ نشینی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ذرائع کا دعوٰ ہے کہ پی ٹی آئی جلسے کی ناکامی کے بعد عمران خان نے پارٹی قیادت میں مزید تبدیلیوں کیلئے مشاورت شروع کر دی ہے، جس کے بعد آنے والے دنوں میں کئی پارٹی رہنماؤں کی چھٹی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے

ذرائع کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کی یوم سیاہ کی کال صرف سوشل میڈیا تک محدود رہی جبکہ پی ٹی آئی رہنمامین شاہراہوں پر احتجاج نہ ہونے کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے لگے ۔پی ٹی آئی کے یوم سیاہ کے سلسلے میں لاہور میں کسی بھی اہم مقام پر احتجاجی نہیں ریلی نکالی جا سکی۔ شہر میں جن حلقوں میں ریلی نکلی، وہ بھی 30، 40 افراد پر مشتمل تھی۔کچھ رہنماؤں نے احتجاج گلی محلوں میں فوٹو سیشن اور ویڈیو بنانے کے لیے کیا اور پھر چلتے بنے ۔ جبکہ کارکنوں کی جانب سے اس سلسلے میں خوب شکوے شکایات بھی کی گئی ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے نومنتخب صدر جنید اکبر اپنی پہلی اسائنمنٹ میں ہی ناکام ہو گئے ہیں جس کے بعد تحریک انصاف میں ان کی تبدیلی کی آوازیں بھی گونجنے لگی ہیں جبکہ جنید اکبر نے پاور شو کی ناکامی پر اپنی نااہلی تسلیم کرتے سے انکار کرتے ہوئے جہاں سوبائی پارٹ رہنماؤں سے وضاحتی رپورٹ طلب کر لی ہے وہیں  جنید اکبر نے دھمکی دی ہے کہ پاورشو فلاپ ہونے کے ذمہ دار رہنماؤں اور عہدے داروں کو سزا کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ مبصرین کے مطابق صوابی جلسے میں عوام کی انتہائی کم تعداد میں شرکت اور جلسے میں کوئی بڑا اعلان نہ ہونے کے سبب کارکنان میں بددلی پھیل گئی ہے۔ جس کے بعد پارٹی میں دھڑے بندی مزید تیز ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی میں دھڑے بندی، عدم اتفاق اور گروپنگ کے ساتھ ساتھ فنڈز کی قلت صوابی جلسے کی ناکامی کا سبب بنی۔

ذرائع کے بقول ورکرز کی کم تعداد کے باعث پی ٹی آئی جلسے میں بڑا اعلان بھی نہ کر سکی جس پر جلسہ گاہ میں موجود تھوڑے بہت کارکنان بھی مایوسی کا شکار ہو کر واپس لوٹے ۔ جلسہ کی نا کامی میں جہاں دھڑے بندی کارفرمارہی ، وہیں فنڈ ز نہ ملنا بھی پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں کیلئے ایک اہم مسئلہ رہا۔ انھی وجوہات کی بنا پر صوابی جلسے میں عوام بڑی تعداد میں شریک نہیں ہو سکی۔۔ ذرائع کے مطابق صوابی جلسے میں محض چند ہزار کارکنوں نے شرکت کی اور پنڈال کا پچھلا حصہ مکمل خالی تھا۔ اس حوالے سے پارٹی رہنماؤں کی جانب سے آخری وقت تک بھرپور کوششیں کی جاتی رہیں کہ کسی طرح یوتھیوں کی تعداد بڑھائی جا سکے لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی اورعوامی عدم دلچسپی کی وجہ سے پشاور، مردان اور مالاکنڈ سے ورکرز نے بہت کم تعداد میں شرکت کی۔ تاہم مبصرین پی ٹی آئی رہنماؤں میں باہمی اختلافات اور گروپنگ کو پی ٹی آئی جلسے کی ناکامی کی وجہ قرار دے رہے ہیں مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں میں باہمی اختلافات کی جھلک جلسے میں بھی واضح دکھائی دی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت کی تبدیلی کی وجہ سے پارٹی کے اندر دھڑے بندی اور اختلافات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ جہاں چند ر ہنماؤں کو تقریر کا موقع نہیں دیا گیا، وہیں چند ایک خاموشی سے واپس بھی چلے گئے ۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کو اسٹیج پر بیٹھنے کے لئے نشست نہیں ملی اور کسی نے یہ زحمت بھی گوارا نہ کی کہ پارٹی کے لئے متحرک رہنما کو نشست دی جائے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے سابق جنرل سیکریٹری اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اسٹیج پر خاموش بیٹھے نظر آئے۔ اسی طرح عاطف خان کو بھی تقریر کا موقع نہ ملاجس پر شیر افضل مروت سمیت عاطف خان کے ساتھ آنے والے ورکرز کو مایوسی ہوئی جنہوں نے اس امید کے ساتھ جلسے میں شرکت کی تھی کہ ان کے منتخب کردہ ارکان قومی اسمبلی کو بھی تقریر کا موقع دیا جائے گا اور وہ اپنے قائدین کے حق میں نعرے لگا ئیں گے۔ تاہم ان کو اہمیت نہ ملی جس پر ور کر بھی ناراض نظر آئے اور وہ جلسے کے دوران ہی مایوس لوٹنے لگے تھے۔ ورکرز کی کم تعداد میں شرکت کے باعث تحریک انصاف کے رہنما کوئی بڑا اعلان بھی نہیں کر پائے اور صرف رٹی رٹائی تقاریر پر اکتفا کیا گیا۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے صوابی جلسے کے لئے بھر پور تیاری اور انتظامات کئے گئے تھے اور بڑے بڑے دعوے کئے جارہے تھے کہ ہزاروں کا مجمع ہو گا اور تل دھرنے کی جگہ نہیں رہے گی ۔ تاہم جلسہ گاہ کا بیشتر حصہ خالی رہا۔ آدھے سے زیادہ کرسیاں بھی خالی پڑی رہیں۔ ادھر اپوزیشن نے تحریک انصاف کے جلسے کو نا کام ترین کہتے ہوئے وقت کا ضیاع قرار دیا اور کہا ہے کہ اپنے صوبے کے عوام کے لئے کام کریں۔ جلسوں، دھرنوں اور مظاہروں میں وقت ضائع نہ کریں۔ اس وقت چاروں صوبوں میں جاری ترقیاتی کاموں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو پنجاب سرفہرست نظر آ رہا ہے۔ جبکہپی ٹی آئی کو مسلسل تیسری مرتبہ صوبے میں حق حکمرانی ملا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی تمام تر توانائیاں جلسوں اور دھرنوں پر خرچ کر رہی ہے۔

Back to top button