افغان طالبان پاکستانی طالبان کے خلاف نہیں جائیں گے


انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ جنگجوؤں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی تو ایسا ممکن نہیں اور پاکستان کو ٹی ٹی پی کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی روکنے کے لیے خود ہی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسد درانی کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت پاکستان کے کہنے پر کوئی ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جو اس کے اپنے مفاد میں نہ ہو۔ انہوں نے یاد دلایا کے امریکی دھمکیوں کے باوجود طالبان نے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نہیں نکالا تھا لہذا وہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کا دباو کیوں لیں گے۔

اردو نیوز نے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران جنرل (ر) درانی سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان پاکستان کے مطالبے پر تحریک طالبان کے خلاف کارروائی کریں گے؟ اس پر درانی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کہنے سے وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہم کہیں گے کہ پاکستانی طالبان کو افغانستان سے نکال دیں، لیکن کیا ہم بھول گے کہ انہوں نے تو اسامہ بن لادن کو بھی افغانستان سے نہیں نکالا تھا، اور امریکی دھمکیوں کے باوجود۔‘ یاد رہے کہ پاکستانی طالبان جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد 2014 میں آپریشن ردالفساد کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھاگ کر افغان صوبوں کنڑ اور ننگرہار منتقل ہو گئی تھی۔ اب یہی لوگ سرحد پار سے پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام افغان طالبان سے بارہا ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرچکے ہیں لیکن افغان حکومت کا موقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

انٹرویو کے دوران آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا کہنا تھا کہ ہمارے کہنے پر افغان طالبان پاکستانی طالبان کو پکڑیں گے تو نہیں لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ وہ انکی حوصلہ افزائی بھی نہیں کریں گے۔ لیکن افغان طالبان ہمارے کہنے پر وہ بھی نہیں کریں گے جسکا ہم مطالبہ کر رہے ہیں۔‘ یاد رہے کہ دوحہ معاہدہ افغان طالبان کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور کابل میں حکومت قائم کرنے کے بعد بھی طالبان کے متعدد رہنما بھی اس بات کو دہراتے رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس طالبان کی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں پر شک کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے کئی مواقع پر دہرایا ہے کہ کسی گروہ یا دہشت گرد تنظیم کو کسی ملک بشمول پاکستان کے خلاف کسی دہشت گرد سرگرمی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہون نے کہا کہ ہمارے پاس ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور اسی لیے ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اپنے قومی مفاد کا تحفظ کر سکیں۔‘‘

تاہم دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستانی طالبان نے یہاں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ طالبان کے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے مفرور رہنما مفتی نور ولی محسود نے افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو مبارکباد پیش کی اور اپنی بھرپور مدد کا یقین دلوایا۔ نور ولی محسود حال ہی میں بی بی سی کو ایک اانٹرویو میں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو فوج کے قبضہ سے آزاد کروا کر رہیں گے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل ریٹائیرڈ اسد درانی نے کہا کہ تحریک طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان یا امریکہ ختم نہیں کرسکتے بلکہ ان سے پاکستان کو خود نمٹنا ہو گا۔
انکا کہنا تھا کہ ’ہمیں چھوٹی موٹی ٹی ٹی پی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، ہم ان سے اتنی جلدی پریشان ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ پتہ نہیں کیا مصیبت ہے۔‘ اسد درانی نے کہا کہ ’اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستانی طالبان کے پیچھے پڑ جائے تو وہان کا باقی کام کون کرے گا۔‘ ’ایسے تو ان کے لیے ایک اور فرنٹ کھل جائے گا۔ اس لیے وہ یہ کام نہیں کریں گے خصوصا جب ٹی ٹی پی نے امریکہ کے خلاف جنگ میں طالبان کا ساتھ دیا ہے۔ امریکی سینیٹ میں طالبان کو برسراقتدار لانے میں معاونت کرنے پر پاکستان کے خلاف مجوزہ پابندیوں کے بل پر تبصرہ کرتے ہوئے اسد درانی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے افغان طالبان کی مدد نہیں کی، ہم نے بس اتنا کیا کہ دباؤ کے باوجود ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسا بل امریکہ میں آنا کوئی نئی بات نہیں اور اس سے پاکستان کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ 32 سالہ فوجی کیریئر میں اسد درانی کئی مرکزی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ 1988 سے 1989 تک ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ اور 1990 سے لے کر 1991 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔اسد درانی تین کتابوں ’دا سپائی کرونیکلز‘، ’پاکستان آڈرفٹ‘ اور ’آنر امنگ سپائز‘ کے مصنف بھی ہیں۔انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’دا سپائی کرونیکلز‘ انڈین خفیہ ایجنسی را کے سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر لکھی تھی جس کے بعد ان پر حکومت پاکستان کی جانب سے را سے تعلقات رکھنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوئے تھے۔

Back to top button