علیمہ خان کے بیٹے شہریز خان کو کس جرم پر گرفتار کیا گیا؟

لاہور پولیس نے علیمہ خان کے ایتھلیٹ بیٹے شہریز خان کو گرفتار تو 9 مئی کے حملوں کے الزام میں کیا ہے لیکن ان پر اصل الزام یہ ہے کہ وہ بیرون ملک سے چلنے والے پارٹی کے انتہائی فوج مخالف سوشل میڈیا بریگیڈ کو آپریٹ کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے بھانجے اور علیمہ خان کے بیٹے کو ’اغوا‘ کرنے کے الزام کے بعد پولیس نے تصدیق کی ہے کہ شہریز خان کو 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن علیمہ خان کا دعوی ہے کہ حملوں کے روز ان کا بیٹا ملک سے باہر تھا کیونکہ وہ آسٹریلیا میں نوکری کرتا ہے۔
گرفتاری کے بعد جمعے کے دن پولیس نے شہریز کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، جہاں اُن کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔ تحریک انصاف نے الزام عائد کیا تھا کہ جمعرات کی شب سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد زبردستی زمان پارک کے قریب اپر مال میں علیمہ خان کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور ’شہریز خان کو زدوکوب کرتے ہوئے اپنے ہمراہ لے گئے۔‘
شہریز خان عمران خان کی بہن علیمہ خان کے صاحبزادے ہیں۔ واضح رہے کہ عمران خان کے ایک اور بھانجے حسان خان نیازی ایڈووکیٹ پہلے ہی فوج کی تحویل میں ہیں اور حسان کو گذشتہ برس فوجی عدالت نے 9 مئی کے روز جناح ہاؤس ہور لاہور پر حملہ کرنے اور کور کمانڈر لاہور کی وردی کو سرعام نذر آتش کرنے 10 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
شہریز خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے رہنماوّں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق وہ 9 مئی کے مقدمات میں نامزد تھے اور مفرور تھے لہذا اب انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ’شہریز خان کو گھر کے دروازے توڑ کر اُن کے بیڈ روم سے اُٹھایا گیا اور ان کے دو بچوں کے سامنے اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘ یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ شاہ ریز کو بدھ کو اہلخانہ کے ہمراہ بیرون ملک جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ رہنما پی ٹی آئی عمر ایوب خان کہتے ہیں کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ’نامعلوم افراد‘ نے گھر کے ملازمین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ انھیں دو برس بعد کیوں گرفتار کیا گیا؟ اندر کی خبر رکھنے والے ذرائع کا دعوی ہے کہ شہریز خان بیرون ملک سے پارٹی کا فوج مخالف سوشل میڈیا بریگیڈ آپریٹ کرتے ہیں جبکہ انکی والدہ علیمہ خان بانی پی ٹی آئی کے ایما پر تمام تر فوج مخالف پیغام رسانی کرتی ہیں۔ لاہور میں پیدا ہونے والے شہریز خان ایچیسین کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ بعد میں اُنھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ اسوقت وہ آسٹریلیا کی ایک ٹیکسٹائل کمپنی ’سمبا گلوبل‘ کے ریجنل ہیڈ ہیں۔ یہ کمپنی دنیا بھر میں ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ کرتی ہے۔
شہریز نے رواں برس رننگ، سوئمنگ اور سائیکلنگ پر مشتمل ’ٹرائی ایتھلون‘ ورلڈ چیمپئن شپ کے لیے بھی کوالیفائی کیا تھا۔ صحافی مہر بخاری نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ شہریز خان کالج میں اُن کے سینئر تھے۔ ’وہ ایک ایتھلیٹ اور کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘ مہر بخاری کا کہنا تھا کہ ’وہ میراتھون ریس میں شرکت کے لیے ایسٹونیا جا رہے تھے۔ لیکن اُنھیں روک دیا گیا۔‘
شہریز خان کو حراست میں لیے جانے پر لاہور پولیس نے ابتداً میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ رانا ثنا اللہ نے جیو ٹی وی پر بتایا تھا کہ عمران کا بھانجا لاہور پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔ تاہم بعدازاں پولیس حکام نے تصدیق کی تھی کہ شہریز خان کو نو مئی کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ رات گئے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ملزم شہریز نو مئی کے مقدمات میں لاہور پولیس کو مطلوب تھا۔‘ پولیس کے مطابق ملزم کو قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہے۔‘
ایس ایس پی انوسٹی گیشن محمد نوید نے علیمہ خان کا یہ دعوی مسترد کیا کہ ان کا بیٹا نو مئی 2023 کو پاکستان میں نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا کہ نو مئی کو شہریز خان کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود تھے۔ اُن کے بقول ’شہریز خان کے خلاف ضمنیوں میں دفعہ 506 کے تحت، یعنی کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے، سمیت دیگر دفعات عائد ہیں۔ لیکن نو مئی کے کیس میں 26 ماہ بعد شہریز کی گرفتاری پر قانونی ماہرین سوال اُٹھا رہے ہیں۔
جناح ہاؤس حملہ کیس: علیمہ خان کے بیٹے شیر شاہ کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
تیمور ملک ایڈووکیٹ نے ’ایکس‘ پر سوال اُٹھایا کہ ’شہریز خان دنیا کے مختلف ممالک میں آتے جاتے رہے۔ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں عمران سے ملتے رہے۔ ایسے میں اچانک لاہور پولیس کو یہ خیال کیسے آیا کہ انھیں بھی گرفتار کرنا ہے؟‘ اس سوال پر ایس ایس پی انوسٹی گیشن نوید شاہ نے بتایا کہ ’ملزم کا نام مرکزی ایف آئی آر میں نہیں بلکہ ضمنیوں میں تھا۔‘ اُن کے بقول ’پولیس کی پہلی ترجیح نو مئی کے کیسز میں ملوث مرکزی ملزمان کی گرفتاری تھی جس کے بعد دیگر ملزمان کوبھی وقتاً فوقتاً گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘
نوید شاہ نے دعویِ کیا کہ ’اس سے قبل بھی ملزم کی گرفتاری کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ پولیس کے ہاتھ نہیں آ سکے تھے۔‘
