2027 میں جنرل عاصم منیر کو مزید5 برس کی توسیع دینے کا امکان

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ نومبر 2027 میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت ختم ہونے پر انہیں مزید پانچ سال کیلئے آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے کیونکہ اب آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ان کی دوبارہ سے کتنی مرتبہ تعیناتی ہو سکتی ہے یا ان کی مدت ملازمت میں کتنی توسیع دی جا سکتی ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں بلال غوری کہتے ہیں کہ بری فوج کے سپہ سالار جنرل حافظ سید عاصم منیر اب فیلڈ مارشل ہوگئے ہیں۔ ایک طرف انکے خیر خواہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چونکہ فیلڈ مارشل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا اسلئے عاصم منیر اب تاحیات آرمی چیف ہوں گے تو دوسری طرف انکے نام سے بدک جانے والے عمران خان کے یوتھیوں کا اصرار ہے کہ پنج تارہ جرنیل ہو جانے کے بعد عاصم منیر فوج کے علامتی سربراہ ہو جائیں گے اور انکی جگہ نیا آرمی چیف تعینات کیا جائیگا۔ لیکن اس خاکسار کی رائے میں یہ دونوں مفروضے غلط ہیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ ماہرانہ رائے دے رہے ہیں انہیں شاید فیلڈ مارشل اور کورٹ مارشل کا فرق بھی معلوم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فیلڈ مارشل کوئی عہدہ یا کسی منصب پر تعیناتی نہیں بلکہ یہ صرف ایک رینک ہے، جس طرح لیفٹیننٹ جنرل تین ستاروں والے جرنیل کا رینک ہوتا ہے اور کور کمانڈر اس کا عہدہ۔ افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کا سربراہ کبھی کرنل رینک کا فوجی افسر ہوا کرتا تھا، پھر بریگیڈیئر اور بعد ازاں میجر جنرل کو ڈی جی آئی ایس پی آر بنایا جانے لگا۔ برسہا برس سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں ترقی پانے کے بعد متعلقہ افسر اسی عہدے پر کام کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ، میجر جنرل بابر افتخار اور میجر جنرل احمد شریف چوہدری یہ سب دو ستاروں کے ساتھ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل بنائے گئے لیکن اگلے رینک میں ترقی ملنے کے بعد بھی کچھ عرصہ ان ذمہ داریوں پر برقرار رہے۔ اسی طرح جسے بری فوج کا سربراہ بنایا جاتا ہے اسے چوتھا ستارہ لگا کر جنرل کے رینک میں ترقی دیدی جاتی ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اب اگر جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل ہو گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کیلئے موزوں نہیں رہے۔ شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ بری فوج کے ایک سربراہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بطور لیفٹیننٹ جنرل خدمات سرانجام دیں اور فل جنرل پروموٹ نہیں ہوئے۔ یقین نہیں آتا تو آخری کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کی کتاب پڑھ لیں۔ دراصل یہ باتیں پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی روایت سے کشید کی جا رہی ہیں جنہوں نے عنان اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے لیے فیلڈ مارشل کے رینک کا انتخاب کرلیا اور جنرل موسیٰ خان کو افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف تعینات کر دیا۔ لیکن اس طرح کے مفروضے تخلیق کرنے والے یہ بات فراموش کر رہے ہیں کہ ایوب خان تو خود ’’بادشاہ‘‘ بن گئے تھے مگر عاصم منیر بدستور بادشاہ گر ہیں۔
بلال غوری کے بقول ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایوب خان بزعم خود فیلڈ مارشل تھے، انہوں نے مصر کے ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتح السیسی کی طرح خود ہی اپنے لیے یہ ٹائٹل منتخب کر لیا تھا جبکہ جنرل عاصم منیر کو باقاعدہ منتخب حکومت نے کابینہ کے ذریعے فیلڈ مارشل کے رینک میں ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان نے اپنی خود نوشت میں ایک بہت دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان کو دوسرے فوجی حکمران جنرل یحیٰ خان کے دور میں مغربی پاکستان کے گورنر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے، وہ اپنی سوانح حیات میں بتاتے ہیں کہ جب ایوب خان فیلڈ مارشل بن گئے تو انہوں نے مصر کے فوجی حکمران جمال ناصر کی طرح چھوٹے گھر میں رہنے کا وعدہ پورا نہ کیا۔ بہر حال ان دنوں افغان وزیر خارجہ سردار نعیم پاکستان آئے تو پشاور میں سرکاری ظہرانے کے دوران ان کی نشست جنرل عتیق الرحمان کے پاس تھی۔ افغان وزیر خارجہ عتیق الرحمان کی طرف جھکے اور کہا، افغانستان میں تو جنگ جیتنے والے جرنیل کو فیلڈ مارشل بنایا جاتا ہے، آپ کے ملک میں فیلڈ مارشل بنائے جانے کا کیا طریقہ ہے؟ عتیق الرحمان سمجھ گئے کہ دراصل افغان وزیر خارجہ جنرل ایوب خان کے فیلڈ مارشل بننے پر طنز کر رہے ہیں۔
عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ ہم میں سے بیشتر فوجی افسر ایوب خان کو یہ رینک دیئے جانے پر خوش نہ تھے کیونکہ یہ سیاسی نوعیت کا فیصلہ تھا۔ لیکن ظاہر ہے یہ بات سردار نعیم کے ساتھ نہیں کی جا سکتی تھی لہٰذا جنرل عتیق الرحمان نے جلد سوچ کر کوئی مناسب جواب دیا تاکہ افغان وزیر خارجہ کی تسلی کروائی جا سکے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ آپریشن بنیان مرصوص کے بعد چونکہ جنرل عاصم منیر قوم کے ہیرو بن چکے ہیں لہٰذا یہ بات باور کروانا ضروری ہے کہ اب مسئلہ ان کے مخالفین کا نہیں بلکہ حقیقی امتحان انہیں ان کے پرستاروں اور قصیدہ خوانوں سے بچانا ہے۔ سید عاصم منیر کے طلب گاروں کا اصرار ہے کہ چونکہ فیلڈ مارشل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا اس لیے جنرل عاصم منیر اب تاحیات سپہ سالار ہوں گے۔ اس کے برعکس پوری بات یہ ہے کہ فیلڈ مارشل تادم مرگ ریٹائر نہیں ہوتا لیکن آرمی چیف تو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سبکدوش ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ اگر حکومت چاہے تو فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو تاحیات آرمی چیف کے منصب پر برقرار رکھ سکتی ہے کیونکہ نومبر 2024 میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں مزید ترمیم کیلئے جو بل منظور کروایا گیا تھا اس میں نہ صرف سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی تھی بلکہ اس میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی گنجائش بھی موجود ہے۔
بلال غوری کے مطابق اس کے علاوہ چار ستاروں والے جرنیل یعنی فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کیلئے عمر کی بالائی حد یعنی 64 سال کی عمر میں سبکدوش ہو جانے کی جو قدغن تھی اسے بھی ختم کردیا گیا تھا۔ یعنی نومبر 2027ء میں جب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی مدت ملازمت ختم ہو گی تو انہیں مزید پانچ سال کیلئے آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے اور ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کتنی بار دوبارہ تعیناتی ہو سکتی ہے یا مدت ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے۔ عاصم ایسے محافظ کو کہتے ہیں جو پارسا ہو، نہ صرف خود کو گناہوں سے بچائے بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھے۔ منیر روشنی سے عبارت ہے گویا اب ہم عاصیوں، گناہ گاروں اور خطا کاروں کیلئے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ہی امیدوں کا چراغ ہیں۔