پاکستان اور انڈیا عالمی سفارتی مہم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟

حالیہ پاک بھارت جنگ میں سیز فائر کے باوجود دونوں ممالک نے اعلی سطحی سفارتی وفود عالمی سفارتی مہم پر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اِن سفارتی مہمات کا مقصد کیا ہے اور دونوں ممالک ان کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حالیہ جنگ میں پاکستان نے انڈیا کو نہ صرف دفاعی محاذ پر ہرایا ہے بلکہ اسے سفارتی محاذ پر بھی شکست دی ہے، جس کے بعد دونوں ممالک نے اعلیٰ سطح کے حکومتی وفود عالمی سفارتی مہم پر روانہ کر دیے ہیں تا کہ جنگ بارے اپنے اپنے موقف کو اجاگر کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ اس نوعیت کی سفارتی مہم کا اعلان پہلے انڈیا کی جانب سے ہوا جس کے بعد پاکستان نے بھی جوابی سفارتی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی حکومت نے سابق وزیرِ خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں ایک وفد لندن، واشنگٹن اور برسلز بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیرِ اعظم آفس کے مطابق یہ وفد عالمی سطح پر انڈیا کے پراپیگنڈے اور سازشوں کو بے نقاب کرے گا۔‘

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وفد میں بلاول بھٹو کے علاوہ ڈاکٹر مصدق ملک، انجینیئر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، حنا ربانی کھر، فیصل سبزواری، تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی شامل ہوں گے۔ وفد کا ایک مقصد اس نقطے کو بھی اجاگر کرنا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر پہلگام حملے کا الزام لگانے کے بعد کوئی ثبوت پیش کیے بغیر ہی حملہ کر دیا۔ وفد اس بات کو بھی اجاگر کرے گا کہ جارحیت پسند بھارت کو حالیہ مختصر جنگ میں پاک فضائیہ کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی اور بھارت کے ایما پر ہی صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے مابین سیز فائر کرایا۔

دوسری جانب اںڈیا بھی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سفارتی مہم چلانے کے لیے امریکہ، یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پارلیمانی ارکان پر مشتمل سات مختلف وفود بھیج رہا ہے۔ انڈین حکومت کے یہ سات پارلیمانی وفود 21 مئی سے 5 جون تک مجموعی طور پر 32 ممالک کا دورہ کریں گے۔ ان وفود کی روانگی سے قبل انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے پہلگام حملے اور اس کے بعد ہونے والے فوجی ٹکراؤ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان پارلیمانی رہنماؤں کو بریف کیا۔

یہ سفارتی مہم ایک ایسے وقت میں چل رہی ہے جب انڈیا کے اندر حکومت کو کئی سوالات کا سامنا بھی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا انڈیا کی اس سفارتی مہم کا مقصد اپنے خلاف تنقید کو دبانا ہے یا پھر واقعی یہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کامیابی حاصل کر سکتی ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کی جوابی سفارتی مہم کس حد تک انڈین مہم کا مقابلہ کر سکے گی؟

انڈین پارلیمانی ارکان کا پہلا وفد متحدہ عرب امارات، لائبیریا، کانگو اور سیرہ لیون کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور جس وفد کی قیادت کر رہے ہیں وہ امریکہ، پانامہ، گیانا، برازیل اور کولمبیا کا دورہ کرے گا۔ یہ وفد 25 مئی کو گیانا سے دورے کا آغاز کرنے والا ہے۔ بی جے پی کے سینیئر رہنما روی شنکر پرساد کی قیادت میں ایک اور وفد برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، اٹلی اور ڈنمارک کی سیاسی قیادت کے سامنے ’انڈیا کا موقف پیش کرنے کے لیے‘ 25 مئی کو فرانس سے دورہ شروع کر رہا ہے۔ جنتا دل یونائیٹڈ کے رہنما سنجے جھا کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جاپان اور سنگا پور میں جبکہ بی جے پی کے رہنما بجینت پانڈا کی قیادت میں ایک وفد سعودی عرب، کویت، بحرین اور الجیریا کا دورہ کرے گا۔

انڈین وزارت خارجہ کے مطابق ڈی ایم کے کی رکن پارلیمان کانی موزی سین یونان، سلووینیا، لیٹویا اور روس جانے والے وفد کی قیات کریں گی۔ این سی پی کی رہنما سپریہ سولے کی قیادت میں ایک انڈین پارلیمانی وفد مصر، قطر، ایتھیوپیا اور جنوبی افریقہ کا دورہ کرے گا۔ انڈیا نے یہ سفارتی مہم ایسے وقت میں شروع کی ہے جب اپوزیشن جماعتیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگ بندی اور لڑائی میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں بی جے پی حکومت سے سوالات کر رہی ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کئی بار یہ پوچھ چکے ہیں کہ اس لڑائی میں انڈین فضائیہ کا کتنا نقصان ہوا اور آیا کوئی جہاز گرا تھا یا نہیں۔ انھوں نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے اس بیان پر تنقید کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آپریشن سندور‘ شروع ہونے سے پہلے پاکستان کو اس کے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔ کانگریس کے طلبا ونگ نے اسی دوران وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی رہائش گاہ کے باہر ایک مظاہرہ بھی کیا جہاں وہ اپنے ہاتھوں میں پوسٹر لیے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’آپ نے آپریشن سے پہلے پاکستان کو اطلاع کیوں دی؟‘ کاںگریس نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا کہ سفارتی مہم کے لیے حکومت نے سیاسی جماعتوں سے پوچھنے کے بجائے خود ہی پارلیمانی ارکان کا انتخاب کر لیا۔

کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا : ترجمان دفتر خارجہ

واضح رہے کہ کانگریس کی جانب سے چنے جانے والے ششی تھرور نے پہلگام حملے کے بعد اپنی پارٹی سے الگ موقف اختیار کر رکھا ہے۔ انھوں نے بیشتر مواقع پر حکومت کی حمایت کی ہے اور ایک مرحلے پر یہ قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگی تھیں کہ کیا وہ حکمراں جماعت بی جے پی میں شامل ہونے والے ہیں؟ لیکن ان کا کہنا تھا کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور وہ اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کر رہے تھے جو بقول ان کے ضروری نہیں کہ پارٹی کے موقف سے مطابقت رکھتے ہوں۔ یاد رہے کہ ششی تھرور خارجہ امور سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

بھارت میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا یے کہ آل پارٹیز وفود بھیجنے کا مرکزی مقصد انڈیان اپوزیشن جماعتوں خصوصا کانگرس کو بے اثر کرنا ہے جس نے جنگ میں شکست کے بعد مودی کو آڑے ہاتھوں لے رکھا ہے۔ انکا کہنا یے کہ پارلیمانی وفود جو پیغام لے کر دنیا بھر کے ممالک میں جا رہے ہیں اس بارے عالمی برادری کو پہلے سے علم ہے، لہازا انڈین وفود کے سفارتی دوروں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے وفود مغربی دارالحکومتوں میں بھیجنا ’ایک پی آر مہم‘ ہے۔

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر محمد شعیب کہتے ہیں کہ ’اس تنازع کے دوران پاکستان اور انڈیا غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور انھیں تمام پیشرفت سے آگاہ کر رہے تھے۔ حالیہ اقدامات اس ہی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘

Back to top button