کرپٹو پر حکومتی پالیسی معاشی خودکشی کے مترادف کیوں؟

معاشی ماہرین نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر قانوناً پابندی ہونے کے باوجود عالمی سطح پر اس کی وکالت کو معاشی خودکشی قرار دے دیا ہے۔ حکومت کی اس دوغلی پالیسی کے بعد سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان میں قانوناً کرپٹو پر پابندی ہے، تو پھر واشنگٹن میں بیٹھ کر اس کی وکالت کیوں ہو رہی ہے؟ ناقدین کے مطابق جب ملک کے اندر پے پال جیسا بنیادی نظام تک متعارف نہیں ہو سکا، جب بینکاری کا ڈھانچہ غیر محفوظ اور فرسودہ ہے، تو ایسے میں کرپٹو جیسے پیچیدہ نظام کو اپنانا خودکشی نہیں تو اور کیا ہے؟ ماہرین کے مطابق حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ کرپٹو کرنسی بارے دوغلی پالیسی اپنا کر ہم جس کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں، وہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔اس لئے جتنی جلدی ہو سکے کرپٹو کرنسی بارے واضح حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کرپٹو پالیسی جوابات فراہم کرنے کی بجائے سوالات کو زیادہ جنم دے رہی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ایسے دروازے میں داخل ہو رہی ہے جس سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ نظر نہیں آتا۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان ابھی تک اپنے روایتی مالیاتی نظام کو مؤثر طریقے سے نہیں چلا پایا جبکہ کرپٹو کرنسی کا نظام اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، جو ملک کو بڑے مالیاتی نقصان سے دوچار کر سکتا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق بظاہر حکومتِ پاکستان کرپٹو پالیسی کو کچھ بین الاقوامی طاقتوں، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو خوش کرنے کی سفارتی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حکومت کو اس معاملے پر مشورے دے رہے ہیں، وہ مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے: حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک پاکستان میں ایک مکمل محفوظ بینکاری نظام بھی قائم نہیں کر سکے، پے پال کا نظام متعارف نہیں کروا سکے، تو ایسے میں اتنی پیچیدہ ورچوئل کرنسی کو مؤثر انداز میں ریگولیٹ کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘

ناقدین کے مطابق حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں اچانک ایک کرپٹو کونسل قائم کی ہے اور کرپٹو اتھارٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے، حالانکہ ملک میں کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت تاحال غیر قانونی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی پاکستانی حکام کی غیر ملکی وفود، خصوصاً امریکی نمائندوں سے ملاقات ہوتی ہے تو سرکاری پریس ریلیز میں اکثر ذکر ہوتا ہے کہ تجارت اور کرپٹو سے متعلق امور زیرِ بحث آئے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت غیر قانونی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ایک عوامی نوٹس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ورچوئل کرنسیوں کو نہ تو قانونی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی اسٹیٹ بینک نے کسی فرد یا ادارے کو پاکستان میں ورچوئل کرنسیوں کے اجراء، فروخت، خرید، تبادلے یا سرمایہ کاری کے لیے اجازت یا لائسنس دیا ہے۔سٹیٹ بنک کے پبلک نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ورچوئل کرنسیوں کی نوعیت غیر واضح ہے اور اس وجہ سے کسی فرد کو نقصان کی صورت میں کوئی قانونی تحفظ یا چارہ جوئی دستیاب نہیں ہے۔

 16 ارب کی آمدن بند،کیا پی ٹی وی بھی بند ہونے والاہے؟

مالیاتی حلقوں کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی کرپٹو پالیسی غیر واضح اور غیر مستقل نظر آتی ہے، جو بظاہرملک کے معاشی یا ریگولیٹری مفادات کی بجائے بین الاقوامی طاقتوں، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ، کو خوش کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے،ماہرین کے مطابق ایسی پالیسی، جو قومی مفاد کے بجائے بیرونی دباؤ کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہو، پاکستان کے لیے طویل المدتی منفی نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ نئی کرپٹو پالیسی اپنا کر حکومت جس سمت میں جا رہی ہے وہاں سے نکلنے کا پلان بھی فائنل رکھے: کیونکہ جب امریکہ میں حکومت بدلے گی تو یقیناﹰ ہم اس پالیسی کو جاری نہیں رکھ سکیں گے اس لئے ہمیں اس دلدل میں اتنا ہی پھنسنا چاہیے جہاں سے نقصان کیے بغیر نکل بھی سکیں

معاشی ماہرین کے مطابق ہماری حکومتیں ہمیشہ بغیر کسی مناسب فزیبلٹی پلان کے دوسروں کی تقلید کرتی ہیں: ”اگر حکومت واقعی کرپٹو ٹریڈنگ کے نقصانات کو سمجھے تو وہ کبھی اس کی اجازت نہ دے کیونکہ کرپٹو ٹریڈنگ ملک سے زرِمبادلہ کے بڑے پیمانے پر اخراج کا سبب بن سکتی ہے، جو پاکستان کے لیے ایک بڑا نقصان ہوگا۔ ماہرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ کرپٹو کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں نظر نہیں آتی حکومت کو کرپٹو کرنسی سے ٹرمپ انتظامیہ کو وقتی خوش کرنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ تاہم ملکی معیشت کو تباہ کر کے ٹرمپ کی خوشی کا حصول بالکل بھی فائدے کا سودا نہیں ہے۔

Back to top button