16 ارب کی آمدن بند،کیا پی ٹی وی بھی بند ہونے والاہے؟

"حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں سے 35 روپے کی پی ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کے فیصلے نے قومی نشریاتی ادارے کی مالی ریڑھ کی ہڈی توڑکر رکھ دی ہے۔ مالیاتی وسائل کی عدم دستیابی اورخسارے میں اضافے کی وجہ سے پی ٹی وی کی بندش یقینی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مبصرین کے مطابق لگتا ہے کہ تنخواہوں، پنشن، اور آپریشنل اخراجات کے بوجھ تلے دبے ریاستی نشریاتی ادارے کا سالانہ 16ارب روپے کا ریونیو ختم کر کے دراصل پی ٹی وی کی نجکاری یا بندش کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
ادھر حکومت کی جانب سے ملازمین کو یقین دہانیاں اور ’بہتر مستقبل‘ کے وعدے دئیے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف پی ٹی وی کے سابق افسران اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں سے لائسنس فیس کی بندش کے بعد قومی نشریاتی ادارے کا بچنا بہت مشکل ہے۔ پی ٹی وی کو خود کو بچانے کے لیے یا تو اپنے چینلز بیچنے ہوں گے یا اثاثے، یا پھر وہ مکمل حکومتی کنٹرول اور گرانٹس کے سہارے چلنے والا ایک بے اختیار ادارہ بن جائے گا۔ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی وی واقعی نیشنل براڈکاسٹر ہے تو پھر حکومت کو کھل کر اسے قومی سلامتی، ریاستی بیانیے اور ثقافتی تحفظ کے لیے مالی مدد دینی ہوگی، ورنہ اس ادارے کو کمرشل چینلز کے ساتھ مقابلے میں جھونک دینا محض ایک تباہ کن مذاق ہو گا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں شامل ماہانہ 35 روپے پی ٹی وی فیس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیس ہر ماہ ہر بجلی کے صارف سے بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی جس سے قومی خزانے کو ہر ماہ 1.5 ارب روپے اور سالانہ تقریباً 16 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوتی تھی جو براہ راست ریاستی نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو منتقل ہوتی تھی جس سے ادارہ اپنے مالی اخراجات چلاتا تھا۔ تاہم اب صارفین کے بجلی کے بلوں سے یہ فیس ختم کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں
وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے حوالے سے سابق ایم ڈی پی ٹی وی اختر وقار عظیم کا کہنا ہے کہ پی ٹی وی نے شروع میں بی بی سی کے قواعد کو فالو کرتے ہوئے لائسنس فیس وصول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی میں ایک فرد ہر گھر جا کر پی ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کرتا تھا جبکہ اس عمل میں مشکلات درپیش تھیں۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ٹی وی کی لائسنس فیس بجلی بلوں کے ذریعے عوام سے وصول کی جائے۔ اس میں 30 روپے پی ٹی وی کو جب کہ 5روپے واپڈا کو دیے جاتے تھے۔ اس رقم سے پی ٹی وی کو سالانہ ساڑھے 11 ارب روپے تک موصول ہو جاتے تھے۔اختر وقار عظیم نے کہا، حکومت اب چاہتی ہے کہ پی ٹی وی اپنے مالی اخراجات کا بوجھ خود اٹھائے لیکن اس کے لیے پی ٹی وی پر عائد پابندیوں کو ہٹانا ہوگا۔ اگر پی ٹی وی پر پابندیاں نہ ہوں تو ہو سکتا ہے کہ پی ٹی وی کو اشتہارات بھی بہتر ملیں اور اس کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھے لیکن اگر اسی طرح کی پابندیاں پی ٹی وی پر برقرار رہیں تو پی ٹی وی کا اپنے زور و بازو پر چلنا مشکل ہوگا۔
تاہم سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا پی ٹی وی لائسنس فیس کے بعد پی ٹی وی کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق اس وقت دیکھنے کے لیے بہت سے ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اپنا سرکاری چینل چلانے کی ضرورت کیا ہے، حکومت ویسے ہی پرائیویٹ چینلز پر اپنے اشتہارات چلانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو پی ٹی وی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو لائسنس فیس ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے پی ٹی وی کو مکمل بند کر دینا چاہیے۔
سابق مارکیٹنگ اور اسٹریٹجی چیف پی ٹی وی خاور اظہر کے بقول حکومتی فیصلے سے لگ رہا ہے کہ پی ٹی وی بند ہونے لگا ہے۔ پی ٹی وی کا جو بھی ریونیو ہے اس کا تقریباً 75 سے 80 فیصد لائسنس فیس سے وصول ہوتا تھا جبکہ صرف 20 سے 22 فیصد اشتہارات سے ریونیو آتا ہے۔ پی ٹی وی کے کل اخراجات تقریباً ڈیڑھ ارب روپے ماہانہ کے قریب ہیں جبکہ سوا ارب روپے لائسنس فیس سے ہی وصول ہوتے ہیں۔ پی ٹی وی کے پاس اب 2 آپشنز ہیں۔ وہ کسی طریقے سے زیادہ پیسے بنانا شروع کرے یا پھر اپنے اخراجات کم کرے یعنی ملازمین کی تعداد کم کرے تاہم یہ دونوں چیزیں ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے پی ٹی وی کا چلنا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔
سابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز پی ٹی وی ارشد خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پی ٹی وی کو اپنے آپریشنز اور ماہانہ اخراجات کے لیے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے چاہئیں۔ اخراجات کیلئے مطلوب زیادہ رقم لائسنس فیس سے حاصل کی جاتی تھی۔ اب جب کہ حکومت نے لائسنس فیس ختم کر دی ہے، تو اب حکومت کو سرکاری خزانے سے پی ٹی وی کو پیسے دینا ہوں گے ورنہ پی ٹی وی کے چلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر حکومت ابھی یہ واضح کر دے کہ جو بجلی بلوں کے ذریعے لائسنس فیس وصول کی جاتی تھی، وہ بجلی بلوں سے نہیں بلکہ کسی اور ذریعے سے پی ٹی وی کو دی جائے گی یا حکومت گرانٹ جاری کرے گی تب تو پی ٹی وی چل سکتا ہے وگرنہ پی ٹی وی کے لیے مالی طور پر چلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
لائسنس فیس ختم کرنے کے حکومتی فیصلے پر آل پاکستان پی ٹی وی پینشنرز ایسوسی ایشن کے سربراہ محمد اشرف کا کہنا ہے کہ حکومت کا پی ٹی وی کی لائسنس فیس وصول نہ کرنے کا فیصلہ موجودہ اور سابقہ پی ٹی وی ملازمین کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب ملازمین کو تنخواہ اور پینشنرز کو پینشن کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکے گی۔ اس وقت بھی پی ٹی وی ادارے کا خسارہ 12 ارب روپے ہے جبکہ اس حکومتی فیصلے سے یہ خسارہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی وی کی نجکاری کی راہ ہموار کی جا سکے۔