مریم نواز حکومت جناح ہسپتال کے نام کی تبدیلی سے کیوں مکر گئی؟

پنجاب حکومت کی وضاحت اور تردید کے باوجود بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام سے منسوب جناح ہسپتال کو مریم نواز کے نام سے موسوم کرنے کی خبریں سخت عوامی تنقیدکی زد میں ہیں۔ ناقدین کے مطابق ذاتی تشہیر اور خودنمائی کی دلدادہ پنجاب حکومت اب جناح کے نام کو بھی قبول کرنے کو تیاد دکھائی نہیں دیتی لگتا یہی ہے کہ اگر عوام کی جانب سے اس فیصلے پر سخت رد عمل نہ آتا تو اب تک ہسپتال کا نام تبدیل کیا جا چکا ہوتا۔ تاہم سیاسی وعوامی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر یوٹرن لے لیا گیا اور نام کی تبدیلی کی تردید کر دی گئی ناقدین کے مطابق پنجاب حکومت کا یہ اقدام صرف ایک نام کی تبدیلی نہیں، بلکہ سیاسی خودنمائی کے اس کلچر کا تسلسل ہے جس میں عوامی وسائل پر ذاتی مہر لگانا ایک روایت بن چکی ہے۔”
مبصرین کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سرکاری اداروں، منصوبوں اور مقامات کے نام سیاست دانوں سے منسوب کرنے کی روایت کافی پرانی ہے۔ پاکستان میں سرکاری اداروں اور منصوبوں کے نام سیاست دانوں سے منسوب کرنے کی روایت ستر کی دہائی سے شروع ہوئی، جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی منصوبوں کو قومی شخصیات کے ناموں سے جوڑا۔
تاہم، یہ روایت 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں عروج پر پہنچی جب پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے رہنماؤں کے ناموں کو سرکاری منصوبوں سے منسوب کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ میں کئی اداروں کے نام اپنے رہنماؤں کے نام پر رکھے، جن میں ’بینظیر بھٹو میڈیکل کالج لیاری‘، ’بینظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاہ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی‘ اور ’بی بی آصفہ ڈینٹل کالج‘ سمیت کئی ادارے شامل ہیں۔
سال 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ متعارف کرایا، جو پاکستان کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے۔ اس پروگرام کا نام بینظیر بھٹو کی 2007 میں شہادت کے بعد ان کی یاد میں رکھا گیا۔
یہ پروگرام غریب خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرتا ہے اور پی پی پی کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا نام بینظیر سے منسوب کرنا سیاسی فائدے کی کوشش تھی، کیونکہ اس سے پیپلز پارٹی کو کارکنان کی وفاداری کو مضبوط کرنے میں مدد ملی ہے۔
اسی لیے عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں اس پروگرام کے نام کو تبدیل کرکے احساس کفالت پروگرام رکھا گیا اور اس کا سکوپ بڑھایا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دوبارہ بحال کیا۔ پیپلز پارٹی نے 2008 کے دورِ حکومت میں ملک بھر میں کئی سرکاری عمارتوں اور منصوبوں کو بینظیر بھٹو سے منسوب کیا۔
مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ نون نے بھی پنجاب میں اپنے رہنماؤں کے نام پر ادارے اور منصوبے منسوب کرنے کی روایت کو فروغ دیا، نواز شریف کے تینوں ادوارِ اقتدار میں پنجاب میں کئی منصوبے ان کے خاندان سے منسوب کیے گئے، جیسا کہ نواز شریف ہسپتال لاہور، شہباز شریف ڈی ایچ کیو ہسپتال ملتان، نواز شریف ایگریکلچرل یونیورسٹی ملتان، شہباز شریف مدر اینڈ چائلڈ کمپلیکس شیخوپورہ سمیت متعدد سڑکیں اور بائی پاس منصوبے بھی اس فہرست میں شامل ہیں جو شریف فیملی کے افراد سے منسوب ہیں۔
مریم نواز کے 2024 میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد، یہ سلسلہ نئی بلندیوں کو چھونے لگا۔ انہوں نے صرف پنجاب کے سب سے بڑے آئی ٹی منصوبے کا نام اپنے والد کے نام پر ’نواز شریف آئی ٹی سٹی‘ رکھا بلکہ 7 مختلف نئے منصوبے بھی نواز شریف کے نام سے منسوب کر دئیے جبکہ صوبے بھر میں 30سے زائد منصوبے مریم نواز کے اپنے نام سے چل رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سیاست دانوں کے نام پر سرکاری اداروں کا نام رکھنا ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ 2017 میں سندھ ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ سرکاری اداروں کے نام صرف قائداعظم، تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں، شہداء، یا تاریخی مسلم شخصیات کے نام پر رکھے جا سکتے ہیں۔عدالت نے واضح کیا تھا کہ موجودہ سیاست دانوں یا ان کے خاندان کے ناموں کا استعمال غیر مناسب ہے، کیونکہ یہ عوامی وسائل سے بننے والے اداروں کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔