ایران امریکہ اور اسرائیل کو کون سا بڑا سرپرائز دینےوالا ہے؟

"ایران نے خاموشی کے ساتھ اپنےخفیہ ایٹمی پروگرام کو تیز تر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تہران نے امریکی حملوں کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی سے رابطے ختم اور جوہری معائنہ کاروں کو بےدخل کر کے جوہری تنصیبات پر سرگرمیاں بحال کر دی ہیں۔ جس کے بعد لگتا یہی ہے کہ آنے والے چند ماہ میں ایران امریکہ اور اسرائیل کو کوئی بہت بڑا سرپرائز دے سکتا ہے۔
ناقدین کے مطابق امریکہ بی ٹو بمبار طیاروں کے ذریعے ‘فیصلہ کن حملے’ کے باوجود ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دیتا ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر، خفیہ تنصیبات کی موجودگی، خاموش ردعمل اور پہاڑوں کے نیچے یورینیم افزودگی کی جاری کارروائیوں نے صدر ٹرمپ کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔اسی لئے ان امریکی حملوں کے بعد نہ ایران میں ماتم ہوا، نہ امریکہ میں جشن مگر سوالات کی فضا اور بھی گہری ہو گئی۔ مبصرین کے مطابق امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کے حملوں کے بعد جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انھوں نے ایرانی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے تو کچھ لمحوں کے لیے دنیا کو لگا جیسے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی کہانی کا اختتام ہو گیا ہو لیکن شاید یہ کہانی کا انجام نہیں بلکہ ایک نئے باب کی شروعات تھی کیونکہ اسی لمحے مغربی میڈیا میں سوالات کا ایک سیلاب امڈ آیا اور پوچھا جانے لگا کہ کیا واقعی ایران کی جوہری صلاحیت خاکستر ہو چکی ہے یا صدر ٹرمپ محض اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اور ڈرامہ رچا رہے ہیں؟
مبصرین کے مطابق یہ سوال صرف رپورٹرز یا تجزیہ نگاروں نے نہیں اٹھایا بلکہ خود برطانوی اور امریکی انٹیلی جنس کے کچھ گوشے بھی اس حوالے سے شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، خاص طور پر فردو کی جوہری تنصیب جو پہاڑ کے اندر بنائی گئی ہے اس پر حملے کی جو سیٹلائٹ تصاویر سامنے آئی ہیں وہ ضرور کچھ تباہی کی نشان دہی کرتی ہیں لیکن دوسری طرف انہی تصاویر میں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ حملے سے ایک دن قبل بڑی تعداد میں ہیوی ٹرک وہاں سے کچھ اشیاء پلانٹ سے باہر لے جا رہے تھے، ناقدین کے مطابق اگر ایران نے اپنا قیمتی افزودہ یورینیم پہلے ہی منتقل کر دیا تھا تو پھر یہ امریکہ کا ایران پر کامیاب حملہ کیسے ہوا؟
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی میڈیا میں بھی یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ایران کے پاس صرف ایک نہیں بلکہ شاید کئی خفیہ جوہری تنصیبات ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو کچھ علم نہیں، ان ہی شبہات کو تقویت دیتے ہوئے ایک سابق اسرائیلی انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ کہ ایران نے حملے سے پہلے ہی اپنا 400 کلوگرام افزودہ یورینیم خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا تھا جو دس جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے اور ان کے بقول تہران کے پاس نہ صرف جوہری ہتھیار بنانے کیلئے مواد موجود ہے بلکہ وہ جدید سینٹری فیوجز بھی رکھتا ہے جن سے اس مواد کو ہتھیاروں کے معیار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف ایران نے بظاہر غیر متوقع حد تک خاموش اور سوچا سمجھا ردعمل دیا، ایران نے امریکی حملوں کے جواب میں کوئی شدید جوابی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی کھلی دھمکی دی، ایران نے صرف یہ اعلان کیا کہ امریکی و اسرائیلی حملے کے وقت تنصیبات خالی تھیں اس لئے بہت محدود نقصان ہوا۔ ایک ایرانی اہلکار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ امریکہ اور اسرائیل جس یورینیم کو ڈھونڈ رہا ہے وہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کے مقام کا علم خود اعلیٰ ایرانی حکام کو بھی نہیں۔
صدر ٹرمپ نے جیسے ہی ان دعوؤں کو "جعلی خبریں” قرار دیا نیویارک ٹائمز نے ایک اور خبر بریک کر دی اور اپنی خبر میں دعویٰ کیا کہ ایران نے ایک نئی خفیہ جوہری تنصیب تیار کر لی ہے جو سطح زمین سے ایک میل بلند پہاڑ کے نیچے قائم کی گئی ہے۔یہاں جدید ترین سینٹری فیوجز کی تنصیب کا عمل شروع ہونے والا ہے اور اگر یہ دعویٰ سچ ہے تو ایران صرف تین ماہ میں وہ مقدار تیار کر سکتا ہے جس سے تقریباً 19 ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ایسا نہیں کہ ایران پہلی بار اتنی بڑی چالاکی دکھا رہا ہے، 2009 میں امریکی اسرائیلی سائبر حملے میں جب ایران کے پانچ ہزار سینٹری فیوجز میں سے ایک ہزار تباہ ہوئے تو دنیا نے سمجھا کہ یہ جوہری سفر رک جائے گا مگر ہوا اس کے برعکس، ایران نے زیادہ جدید نظام نصب کیے اور 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت عائد کردہ پابندیوں سے وقتی طور پر نکل گیا اور یوں ایران کو بھی ایک بار پھر ہاتھ کھولنے کا موقع مل گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق آج صورتحال یہ ہے کہ امریکی بمبار طیارے گزر چکے ہیں، میزائل داغے جا چکے ہیں، تصویریں آ چکی ہیں، بیانات جاری ہو چکے ہیں لیکن سب سے بڑا سوال اب تک باقی ہے جس کا جواب نہیں آیا کہ ایرانی افزودہ یورینیم کہاں ہے؟ وہ سینٹری فیوجز کہاں ہیں؟ وہ خفیہ تنصیب جسے ایرانی حکومت ابھی تک "راز” رکھے ہوئے ہے وہ کہاں واقع ہے؟ مبصرین کے مطابق کہا جاتا ہے کہ جنگوں کا اصل میدان توپوں یا بموں سے نہیں بلکہ ذہنوں اور میزوں پر لڑا جاتا ہے اور بظاہر اب ایران بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد پاسداران انقلاب کو مکمل اختیارات مل چکے ہیں، معائنہ کاروں کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ہے اور سفارتی دروازے محض رسمی بیانات کی حد تک کھلے ہیں۔ جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک ایسی جوہری دھند میں داخل ہو چکی ہے جہاں نظر کچھ نہیں آتا لیکن ہر قدم پر خطرہ موجود ہے۔