پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ کون سا طبقہ لے رہا ہے؟

پاکستان میں اشرافیہ پر نوازشات کے ساتھ ساتھ عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی سیاسی و عوامی حلقوں میں اراکین اسمبلی اور سپیکر و چئیرمین سینٹ کی تنخواہوں پر تنقید کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم بہت کم لوگ جانتے ہیں ریاست کے دو دیگر ستونوں یعنی عدلیہ اور انتظامیہ کی تنخواہیں مقننہ سے کئی گنا زائد ہیں۔ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کی تنخواہوں کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی گراس سیلری 28لاکھ15ہزار 387 روپے ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ ججز کی گراس سیلری 27لاکھ47ہزار361روپے ہے جبکہ چیف جسٹس ہائی کورٹس کی گراس سیلری 26لاکھ 53ہزار418 روپے اور ہائی کورٹس ججز کی کل تنخواہ26لاکھ6ہزار روپے ہے ۔

علاوہ ازیں وفاقی سیکرٹری کی گراس سیلری 8لاکھ18ہزار ،چیف سیکرٹری کی سیلری 14لاکھ1ہزار روپے ہے۔ آئی جیز کی تنخواہ 10 لاکھ 45 ہزار روپے ہے۔

تاہم دوسری جانب اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کی گراس سیلری 7لاکھ 5ہزار روپے ہے جبکہ اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہ4لاکھ85ہزار، بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ 4لاکھ40ہزار روپے، خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تنخواہ 2لاکھ60ہزار اور سندھ اسمبلی اراکین کی گراس سیلری ایک لاکھ 55ہزار روپے ہے۔اسی طرح گلگت بلتستان سمبلی کے اراکین کی تنخواہ4لاکھ65ہزار روپے ہے۔ جبکہ گزشتہ ماہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں 600 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تنخواہیں 2 لاکھ 5 ہزار روپے سے بڑھا کر 13 لاکھ روپے کر دی گئی ہیں، اس کے علاوہ نئی تنخواہ کا 50 فیصد یعنی 6 لاکھ 50 ہزار روپے بطور تفریحی الاؤنس دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی اور چئیرمین سینٹ کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے پر جہاں عوامی حلقوں میں سخت تنقید کی گئی ہے وہیں دوسری جانب ارکین اسمبلی نے بھی اس حوالے سے آواز بلند کرنی شروع کر دی ہے۔ جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ وزیر اعظم کو اراکین اسمبلی اور سپیکر وچئیرمین سینٹ کی تنخواہوں میں اضافے بارے ایکشن کا کوئی استحقاق نہیں کیونکہ قومی اسمبلی و سینٹ ایک خودمختار ادارے ہیں وزیر اعظم ان کے مالی معاملات میں مداخلت کے مجاز نہیں تاہم وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافے کی خبروں کے نوٹس نے اب تک ہونے والے اشرافیہ کے لئے مراعات اور خصوصاً وزرا، وزرائے مملکت و اراکین قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافے کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔

ناقدین کے مطابق ایک طرف جہاں پاکستان کے کروڑوں عوام مہنگائی اور مسائل کی آگ میں جل رہے ہیں اور ان کے ریلیف کا امکان نظر نہیں آ رہا تو دوسری جانب منتخب اراکین اسمبلی اور خصوصاً چیئرمین سینیٹ و سپیکر کی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد اضافے کا عمل عوام اور حکمران اشرافیہ میں بڑے فاصلوں کا باعث بن رہا ہے ۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے تو چیئرمین سینیٹ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں اور مالی مراعات میں بے تحاشہ اضافے کومالی فحاشی قرار دے دیا ہے ۔خواجہ آصف کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔مبصرین کے مطابق کیا ہی اچھا ہوتا کہ تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے خود چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی از خود کوئی وضاحت دیتے اور اتنے بڑے اضافے پر نظرثانی کی استدعا کرتے۔ تاہم اس حوالے سے اطلاعات یہی ہیں کہ سپیکر اور چئیر مین سینٹ نے پہلے خود اراکین اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں اضافے میں کردار ادا کیا اور بعد ازاں فنانس کمیٹیوں نے اپنے اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں اور مراعات میں بڑے اضافے کی سفارش کر دی اور اسمبلی سیکرٹریٹ نے بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 600فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔

ڈاکٹر قدیر خان نے ایرانی نیوکلیئر پروگرام آگے بڑھانے میں کیسے مدد کی؟4

تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حالات میں بڑا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور مہنگائی بے روزگاری اور غربت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے تو اس کیفیت میں اراکین پارلیمنٹ اور حکومتی ذمہ داران نےاپنی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد اضافہ کیوں کیا؟ مبصرین کے مطابق اس حالیہ پیشرفت کے بعد حکومت ، اراکین پارلیمنٹ اور مہنگائی زدہ عوام میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور خود عوام کو اب حکومت اور اپنی سیاسی جماعتوں اور اراکین پارلیمنٹ سے کوئی امید نظر نہیں آتی ۔تاہم پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا تعلق پارلیمنٹ سے ہے اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں تاہم حقیقت یہ ہے تنخواہوں میں اضافہ کے عمل نے خود کفایت شعاری کی دعویدار شہبازحکومت کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے اور لوگ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کا مشورہ دینے والی حکومت کو یہ نظر نہیں آ رہا کہ اشرافیہ کے لئے بے دریغ ریلیف کیلئے فنڈز ہاں سے آ گئے؟ کیا یہ دوہرا معیار نہیں ؟ کیا مہنگائی کے اس دور میں اتنے بڑے اضافے کا کوئی جواز تھا۔ اشرافیہ پر نوازشات کا یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا۔

Back to top button