علی امین گنڈاپور نے عمران کا اعتماد اور عزت کیسے گنوائی؟

ماضی میں عمران خان کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی سمجھیں جانے والے وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور اب نہ صرف اپنے کپتان کا اعتماد کھو چکے ہیں بلکہ اپنی کابینہ اور صوبے کے عوام کا اعتماد بھی کھوتے نظر آتے ہیں۔ حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اب گنڈاپور عمران خان سے لے کر پارٹی ورکرز تک، سبھی ان نظروں میں مشکوک ہو چکے ہیں۔ لہذا اب ان کے پاس وزارت اعلی کی طاقت تو موجود ہے لیکن وہ اپنی عزت گنوا بیٹھے ہیں۔
گنڈاپور وزارت اعلی کے منصب پر فائز ہونے سے قبل نہ صرف پارٹی قیادت کے لیے اہم ترین مقام رکھتے تھے بلکہ کارکنان کے دلوں میں بھی ان کے لیے ایک خاص جگہ تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ ماضی میں جلسوں سمیت ہر ایونٹ میں کارکنان ان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے مگر اب ان کے خلاف نعرے بازی اور الزامات عام بات بن چکی ہے۔
علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے اہم رہنما اور عمران خان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھی تحریک انصاف سے کیا۔ وہ اس وقت مرکزی سطح پر مقبول ہوئے جب عمران نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان مارچ کا اعلان کیا اور علی امین گنڈاپور نے اس کے تمام انتظامات کیے۔
علی امین گنڈاپور اپنی پرجوش تقاریر اور مخالفین پر سخت تنقید کی وجہ سے کارکنان میں مقبول ہوئے۔ علی امین 9 مئی واقعات کے بعد بھی ڈٹے رہے اور پرویز خٹک کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد صوبائی صدر بنے، سخت حالات کا مقابلہ کرنے پر کارکنان کی نظر میں ان کی قدر مزید بڑھ گئی۔ لیکن اب پارٹی کارکنان نے اسی علی امین کے خلاف گزشتہ کچھ عرصے سے محاذ کھولا ہوا ہے اور کسی بھی پارٹی تقریب یا جلسے میں ان کے خلاف نعرے بازی معمول بن گئی ہے۔ جو کبھی پارٹی کی جان اور عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ 28 ستمبر کو عمران خان کی رہائی کے لیے پشاور والے جلسے میں کارکنوں نے ان کی تقریر کے دوران شور شرابہ کیا، جوتے دکھائے اور’اڈیالہ مارچ‘ کے نعرے لگائے، تاہم یہ پہلی بار نہیں تھا کہ علی امین گنڈاپور کے خلاف ان کے سامنے ایسے نعرے لگے ہوں، عمران کی گرفتاری کے بعد سے ہی ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں اور علی امین پارٹی میں مشکل میں پھنس گئے ہیں۔
اس سے پہلے بھی دو بار اسلام آباد مارچ اور لاہور ریلی کے دوران کارکنان علی امین کو گھیر چکے تھے۔ ان پر عمران خان سے غداری اور دھوکہ دہی کے الزامات لگتے رہے جن کی علی امین ہمیشہ تردید کرتے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ نومبر 2024 میں بھی اسلام اباد مارچ تب بری طرح ناکام ہوا جب علی مین گنڈاپور اور بشری بی بی اچانک جوتیاں اٹھا کر واپس پشاور فرار ہو گئے تھے۔ 2024 کے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ بننے تک تحریک انصاف میں علی امین گنڈاپور کو نظریاتی رہنما اور عمران کے قریبی اور مشکل وقت کا وفادار ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان کی ایک تقریر بھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ علی امین ان کے مشکل وقت کے ساتھی ہیں۔
لیکن اب پی ٹی آئی کے کارکنان کی رائے علی امین کے بارے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان پر کمپرومائزڈ کے الزامات کھلے عام لگنے لگے، پشاور جلسہ ہو یا اسلام آباد ڈی چوک مارچ، کارکنان نے کھل کر علی امین کے خلاف نعرے لگائے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پشاور جلسے میں علی امین مزید بے نقاب ہوئے۔ کارکنان نے ان کے خلاف نعرے لگائے، جوتے دکھائے اور بوتلیں پھینکیں۔ علی امین گنڈاپور کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد حالات اس لیے تبدیل ہوئے کیونکہ وہ کارکنان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم میں کارکنوں کو نظرانداز کرنا بھی ان کے خلاف نفرت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنی۔
اب تو ان کی کابینہ کے وزرا نے بھی استعفے دینے شروع کر دیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان عمران خان کے علاوہ کسی اور کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں اور عمران کے جیل میں ہونے پر وہ سخت غصے میں ہیں۔ ان کے مطابق کارکنان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہوئی، اور وہ ہر معاملے پر جذباتی ردعمل دیتے ہیں جیسا کہ عمران خان کی تقاریر میں بھی جھلکتا ہے۔ ایسے میں ورکرز سمجھتے ہیں کہ اگر علی امین گنڈاپور چاہیں تو اسلام آباد پر حملہ اور وہ کریں عمران خان کو رہا کروایا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ گنڈاپور کی ایسی اخری کوشش نومبر 2024 میں بری طرح ناکام ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور بھی ختم ہو کر رہ گئی اور اب ان کی ہر احتجاجی کال ناکامی کا شکار ہوتی ہے۔
سائبر کرائم ایجنسی کا عمران خان سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر 21 نکاتی سوالنامہ
تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد علی امین کی سیاست کا انداز بدل گیا ہے۔ وہ اس وقت وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں جو وقت کی ضرورت ہے۔ بطور وزیراعلیٰ اداروں کے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا ان کی مجبوری ہے اور وہ تصادم والی سیاست نہیں کر سکتے جو کارکنان چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کارکنان کو غصہ عمران خان کی جیل میں موجودگی پر ہے اور ان کی امید علی امین سے ہے کہ وہ کپتان کو نکالیں گے۔ لیکن حقیقت شاید اس کے برعکس ہے۔ علی امین ایک طرف حکومتی ذمہ داریاں اور دوسری طرف پارٹی کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ باہر جذباتی دکھائی دیتے ہیں مگر اندرون خانہ نرم رویہ رکھتے ہیں اور معاملات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید عمران خان بھی علی امین سے مطمئن نہ ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سیٹ اپ میں اس عہدے کے لیے علی امین سے بہتر کوئی آپشن موجود ہے؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک عمران خان کے پاس گنڈاپور سے بہتر آدمی نہیں، لیکن جس روز ان کو ایسا شخص مل گیا، علی امین گڈاپور وزارت اعلی پر برقرار نہیں رہ پائیں گے۔
