آصف زرداری تاریخ کی عدالت سے بری ہو کر دوبارہ صدر کیسے بنے؟

صدر آصف زرداری کے پہلے دور صدارت میں ان کے ترجمان رہنے والے فرحت اللہ بابر کی حال ہی میں شائع ہونی والی کتاب "دی زرداری پریزیڈنسی” پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئیر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ روس کے مشہور ادیب دوستو فسکی کی زندگی ایک ڈرامہ تھی۔ حکومت مخالف ادب کو فروغ دینے کے جرم میں اسے موت کی سزا دی گئی لیکن جب اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنےگولی مارنے کیلئے پہنچایا جا رہا تھا تو آخری لمحات میں جیل حکام کو اطلاع ملی کہ دوستو فسکی کی سزائے موت کو قید میں بدل دیا گیا۔ وہ موت سے تو بچ گیا لیکن اسے کئی سال سائبیریا کی ایک جیل میں گزارنا پڑے۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے ایک ناول لکھا جس کا نام
CRIME AND PUNISHMENT
یعنی جرم اور سزا تھا۔ اس ناول کی وجہ سے دوستو فسکی کو عالمی شہرت ملی اور وہ حکمران جو دوستو فسکی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے وہ اسکی خوشامد کرتے نظر آئے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر نے آصف زرداری کے پہلے دور صدارت 2008 تا 2013 کے بارے میں لکھی گئی اپنی انگریزی کتاب کا اختتام دوستو فسکی کے مشہور ناول ’’جرم اور سزا‘‘ کے دو کرداروں پر کیا ہے۔ فرحت اللہ بابر اپنی کتاب کی آخری سطور میں لکھتے ہیں کہ ’’آخری تجزیہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو ہمیشہ ایک ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ انہیں دیکھ کر دوستو فسکی کا مشہور ناول جرم اور سزا یاد آتا ہے جس کا مرکزی کردار راسکو نیسکوف ایک عورت سونیا کو بہت گناہ گار سمجھتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ سونیا گناہ گار نہیں تو وہ سونیا کے قدموں میں گر کر معافی مانگتا ہے۔ راسکو نیسکوف کی یہ معافی دراصل انسانی برداشت کی فتح تھی۔ جن لوگوں نے جنرل مشرف کے الفاظ میں چوہے اور بلی کا کھیل کھیلا وہ بھی انسانی برداشت کےسامنے ہار گئے۔ انہوں نے آصف زرداری سے معافی تو نہیں مانگی لیکن زرداری کو اور کیا چاہئے کیونکہ وہ تو ہارنے والوں پر فاتحانہ انداز میں ہنس رہے ہیں‘‘۔
فرحت اللہ بابر کی کتاب کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ قارئین کی تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابر صاحب کی کتاب پر پیپلز پارٹی کے اندر زیادہ تنقید ہو رہی ہے جسکی بڑی وجہ کتاب کے منظر عام پر آنے کی ٹائمنگ ہے۔ میڈیا میں کتاب کے صرف وہ حصے اجاگر ہوئے جن میں بتایا گیا کہ 2008 میں آصف زرداری تب کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مرضی کے خلاف صدر مملکت بنے اور ایبٹ آباد آپریشن کے بعد کیانی اور صدر زرداری میں غلط فہمیاں بہت بڑھ گئیں۔ ان واقعات کی روشنی میں تو زرداری صاحب کا دوبارہ صدر بننا بہت مشکل تھا لیکن 2024 میں وہ دوبارہ صدر بن گئے اور موجودہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی ہیں۔
فرحت اللہ بابر پیپلز پارٹی کے اندر ایک ایسے مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جو شروع سے ہی آصف زرداری کے سیاست میں آنے کے خلاف تھا۔ پھر حالات بدلے اور زرداری صاحب پیپلز پارٹی کی مجبوری بن گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں زرداری صاحب نے سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن جب 1989 میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اسے ناکام بنانے کیلئے انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ بی بی کی حکومت بچانے کے جرم میں تب کی اپوزیشن نے انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ کہنا شروع کر دیا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ جب 1990 میں محترمہ کی حکومت برطرف کر دی گئی تو زردای صاحب کو کئی جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسی زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ آصف علی زرداری الیکشن لڑیں گے تاکہ عوام کی عدالت سے سرخرو ہو سکیں۔ میں نے روزنامہ جنگ کے سیاسی ایڈیشن میں جب یہ لکھا کہ زرداری صاحب کو مجبوری میں الیکشن لڑایا جائے گا تو پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی سینئر رہنمائوں نے میری خبر کی تردید کر دی تھی۔ لیکن پھر زرداری صاحب الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی پہنچ گئے انہیں سیاست میں لانے کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا لیکن آج بھی پیپلز پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو زرداری صاحب کی سیاست سے اتفاق نہیں کرتے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ میں ایک اور واقعے کا عینی شاہد ہوں جب 1992 میں پیپلز پارٹی کےتین رہنماؤں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ آصف زرداری سے طلاق لے لیں تو آپ کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ محترمہ نے یہ تجویز سختی سے مسترد کر دی تھی فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب کے صفحہ 24پر لکھا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی یا حکومت میں اپنے خاوند کے ہائی پروفائل کردار کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی لیکن اسی صفحے پر لکھتے ہیں کہ زرداری صاحب ناصرف پارلیمینٹ کے رکن بن گئے بلکہ اپنی اہلیہ کی کابینہ میں بھی شامل کر لئے گئے۔ یہ تضاد کتاب میں جگہ جگہ نظر آتا ہے، لیکن دوسری طرف اس کتاب میں زرداری صاحب پر کرپشن کے الزامات غلط قرار دے دیئے گئے ہیں۔ بابر صاحب نے صفحہ 50 پر لکھا ہے کہ آصف زرداری نے گیارہ سال جیلوں میں بغیر کسی سزا کے گزارے اور ان پر کوئی الزام سچا ثابت نہ ہوا۔ ان پر کئی مقدمے بنانے والے سیف الرحمان نے انکے قدموں میں گر کر معافی مانگی۔ اتفاق سے اس معافی کا بھی میں عینی شاہد ہوں سیف الرحمان نے جن کے حکم پر یہ مقدمے بنائے انہوں نے تو کبھی زرداری صاحب سے معافی نہیں مانگی۔
فرحت اللہ بابر کی کتاب میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کے علاوہ نواز شریف، عمران خان، شاہ محمود قریشی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر بہت تنقید کی گئی ہے جنہوں نے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر زرداری صاحب کے خلاف سازشیں کیں۔ فرحت اللہ بابر نے کتاب کے آغاز میں اعتراف کیا ہے کہ زرداری نے انہیں کبھی متاثر نہیں کیا لیکن صفحہ 146 پر وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جسٹس افتخار چودھری کو بحال کرنے کی مہم کے پیچھے جنرل کیانی تھے اور جب صدر زرداری اس مہم کا مقابلہ کر رہے تھے تو میں انکی مزاحمت سے بہت متاثر ہوا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد آرمی چیف کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کے احتساب کا موقع بنا لیکن زرداری صاحب نے یہ موقع گنوا دیا اور پھر وہ میمو سکینڈل کا نشانہ بنے۔ اسی سکینڈل میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور دوسری طرف جنرل پاشا نے عمران خان کی خفیہ سرپرستی شروع کر دی۔ زرداری صاحب پر استعفے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ ایک رات انکی طبیعت خراب ہو گئی تو جنرل کیانی نے سی ایم ایچ راولپنڈی میں علاج کی پیشکش کی لیکن عدم اعتماد اتنا زیادہ تھا کہ زرداری صاحب نےسی ایم ایچ جانے سے انکار کر دیا۔
فرحت اللہ بابر کے بقول زرداری صاحب علاج کیلئے دبئی جانا چاہتے تھے اور اپنے ساتھ حسین حقانی کو بھی لے جانا چاہتے تھے جو میمو گیٹ سکینڈل کا مرکزی کردار بنائے جا چکے تھے۔ بابر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز آصف زرداری لوڈڈ گن کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے تو ڈاکٹر عاصم حسین نے انکے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ زرداری صاحب کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ ہیلی کاپٹر میں فائرنگ شروع کر دیں۔ لیکن اس واقعے کی ڈاکٹر عاصم حسین نے خود تردید کی ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی دبئی میں زرداری صاحب کے ساتھ موجود تھے۔ جب حسین حقانی سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں زرداری صاحب کے پاس کوئی گن نظر نہیں آئی۔ ڈاکٹر عاصم اور حسین حقانی کا کہنا ہے کہ فرحت اللہ بابر تو اس موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ اپنی کتاب میں فرحت اللہ بابر نے ایران اور سعودی عرب میں مفاہمت سے لیکر سی پیک کے آغاز تک کئی اہم تمغے زرداری صاحب کے گلے میں ڈالے ہیں اور انکی برداشت و حوصلے کی داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ لہٰذا زرداری صاحب کا کردار سونیا سے زیادہ دوستو فسکی سے مماثلت رکھتا ہے کیونکہ جن طاقتوں نے دوستو فسکی کو جھوٹے الزامات میں جیل بھیجا وہ بعد میں دوستو فسکی کی پرستار بن گئیں۔ مختصر یہ کہ تاریخ کی عدالت میں آصف علی زرداری خود پر لگائے گئے تمام تر الزامات سے بری ہو کر دوبارہ صدارت پر فائز ہو گئے۔