دفاعی بجٹ میں 10 برس میں سب سے بڑا اضافہ کیوں کیا گیا؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ کو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں ریکارڈ اضافے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اب پاکستان اپنے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ہونے والا اضافہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے بڑا اضافہ ہے۔
وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں 20.2 فیصد کا بڑا اضافہ تجویز کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے دفاع کا بجٹ 428 ارب روپے کے اضافے کے بعد 2550 ارب روپے ہو جائے گا۔ دفاعی اخراجات کے لیے رکھی گئی یہ رقم پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریبا 2 فیصد جبکہ مجموعی بجٹ کا تقریبا 15 فیصد بنتی ہے۔
حکومت نے بجٹ 26-2025 کا ماضی میں دیکھیں تو پاکستان کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوتا رہا، لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستانی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط کرنا لازم ہو چکا ہے۔حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں مسلح افواج کے افسران اور سپاہیوں کیلئے سپیشل الاؤنس کا اعلان بھی کیا ہے، تاہم وزیر خزانہ کے مطابق یہ رقم دفاعی بجٹ سے ہی خرچ کی جائے گی۔
اس سے قبل گزشتہ برس اپنا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے دفاع کے لیے 318 ارب روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 2122 ارب روپے مختص کیے تھے۔ اسی طرح مالی سال 24-2023 میں دفاع کے لیے 1804 ارب جبکہ مالی سال 23-2022 میں 1530 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے بجٹ سے پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا کہ ملکی خودمختاری کی قیمت پر بچت نہیں ہو سکتی اور دفاعی رقوم میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ بجٹ میں مسلح افواج کی صلاحیت بڑھانے اور مستقبل میں وطن کے دفاع کے لیے جو کچھ درکار ہو، وہ فراہم کریں۔ انکا کہنابتھس کہ اب یہ ثابت ہو چکا کہ ہمارا ہمسایہ خطرناک ہے جس نے رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ کیا لیکن ہم نے اُسکا منہ توڑ جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو تیار رہنا ہو گا تا کہ اگر دشمن دوبارہ حملہ کرے تو ہم فوری جواب دے سکیں۔ ایسے میں دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا بھی بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ سکیورٹی صورت حال مخدوش ہے اور ملکی دفاع حکومت کی اہم ترجیح ہے لہازا اس قومی فرض کے لیے بجٹ میں 2550 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ انڈیا کے ساتھ چار روزہ جنگ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملے فوجی صلاحیت بڑھانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق سال 26-2025 کے لیے پاکستان کی بری فوج کے لیے 1170 ارب مختص کیے گئے ہیں جو کہ مجموعی دفاعی بجٹ کا 45.9 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان ایئرفورس کے لیے 520 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ مجموعی دفاعی بجٹ کا 20.4 فیصد بنتے ہیں۔ نیوی کے لیے 266 ارب مختص کیے گئے ہیں جو کہ مجموعی دفاعی بجٹ کا 10 فیصد بنتے ہیں جبکہ انٹر سروسز آرگنائزیشنز کے لیے 498 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ مجموعی بجٹ کا 19.5 فیصد بنتے ہیں۔
اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو انڈیا کے سالانہ دفاعی اخراجات پاکستان سے نو گنا زیادہ ہیں، تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ انڈیا سے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوںکہ انڈیا کی معیشت پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسائل کا سامنا ہے اور اب انڈیا کی طرف سے خطرہ بڑھ گیا۔ دفاعی بجٹ میں اضافے کی تجویز کو پاکستان میں اقتدار کے حلقوں میں ہرگز کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور یہ اسی شکل میں منظور بھی ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ انڈیا اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کے بعد قومی اور بین الاقوامی دفاعی ماہرین خطے میں اسلحے کے حصول کی نئی دوڑ اور دفاعی اخراجات میں اضافے کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ ہما بقائی کہتی ہیں کہ انڈیا کا جارحانہ بیانیہ اور دہشت گردی کی تازہ لہر نے دفاعی اخراجات میں اضافے کو ایک طرح کا ’نیو نارمل‘ بنا دیا۔ انڈیا کی جانب سے تواتر سے آنے والے بیانات سے پاکستان میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کا بیانیہ یہ ہے کہ ہم روایتی جنگ کو ایک نئے لیول پر لے گئے ہیں۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ اس اضافے کی کسی سطح پر ہرگز مخالفت نہیں ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ حلقے بھی جو عموماً بجٹ پر تنقید کرتے ہیں، اب صرف فوج کے ’نان کومبیٹینٹ‘ اخراجات کم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
تاہم تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ دفاع کے بڑھتے اخراجات انڈیا اور پاکستان دونوں ہی ملکوں کی عوام کو متاثر کرتے ہیں۔ عامر ضیا کے مطابق دونوں ملکوں میں غربت اور غریب عوام کا حال ایک سا ہے۔ ’پاکستان اور انڈیا میں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، غذائیت کی کمی بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے، غربت بہت زیادہ ہے، کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، پینے کو صاف پانی میسر نہیں لیکن دونوں ملکوں کا دفاعی بجٹ دیکھیں تو یہ حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے۔‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے بجٹ اور معاشی پالیسی میں کوئی ’انوویشن‘ نہیں آ رہی۔ انکے۔مطابق جب تک ملک میں جدید معاشی اصلاحات نافذ نہیں ہوں گی اور حکومتیں چاہے علامتی ہی سہی مگر اپنا سائز اور اپنے اخراجات کم نہیں کریں گی، دفاع جیسے شعبوں کے بجٹ بڑھنے کا بوجھ ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں پر ہی پڑتا رہے گا۔