مودی نے ایک رات میں انڈیا کا اربوں روپے کا نقصان کیسے کروایا؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر نہیں بلکہ خود پر حملہ کیا اور ایک ہی رات میں بھارت کا اربوں روپوں کا نقصان کروا ڈالا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان ایئر فورس نے 2019 میں بھی بھارتی طیارے تباہ کر کے انڈین فضائیہ پر اپنی برتری ثابت کی تھی اور اب 2025 میں بھی جدید ترین رافیل جنگی جہاز تباہ کر کے اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ یوں بھارت، مودی اور انڈین ائیر فورس، تینوں کا نام نہاد وقار ایک مرتبہ پھر سے خاک میں مل گیا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ حملے کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے ایک اعلامیے میں دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے۔ 2019ء میں بھی مودی حکومت نے بالا کوٹ کے ایک پہاڑی مقام پر حملہ کر کے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں موجود دہشت گردوں کے تربیتی مرکز کو تباہ کر دیا گیا یے۔ اس حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد جب میں اس مقام پر پہنچا تو وہاں کوئی تربیتی مرکز نہیں تھا۔ جیسا جھوٹ بھارت نے 2019 میں بولا ویسا ہی جھوٹ 2025 میں بولا گیا۔ اس بار بھی پاکستان کہ مختلف شہروں بشمول آزاد کشمیر میں میزائل حملوں سے 36 بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا ہے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ بھارت نے 22 اپریل کو پہلگام میں سیاحوں کے قتل کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستان میں معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کرکے اپنے خلاف بہت سے ثبوت چھوڑ دیئے ہیں۔ پاکستان نے حملے کا فوری جواب دیا اور بھارت کے 6 جنگی طیارے مار گرائے۔ بھارت کے چار جنگی جہاز پاکستان ایئر فورس کے شاہینوں نے ڈاگ فائیٹ میں مار گرائے جبکہ دو طیارے پاکستانی ایئر ڈیفنس سسٹم سے فائر کئے جانے والے ایچ کیو نائن میزائلوں کا نشانہ بنے۔ سات مئی کی صبح جب دن کی روشنی نمودار ہوئی تو بھارتی میڈیا نے اپنی ایئر فورس کے نقصانات دکھانے شروع کر دیئے۔ اب نریندر مودی کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ پاکستان نے ناصرف بھارت کے جنگی طیاروں کو نشانہ بنایا بلکہ لائن آف کنٹرول کے آس پاس کئی بھارتی چیک پوسٹوں اور مورچوں کو بھی تباہ کر دیا۔ پاکستانی جواب مودی کیلئےغیر متوقع تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کچھ سویلین علاقوں پر میزائل گرا کر اپنی فتح کا جشن منا لے گا لیکن اب بھارتی میڈیا پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ ایک ہی رات میں ان کی ایئر فورس کا اتنا بھاری مالی نقصان کیسے ہو گیا؟ یاد رہے کہ فرانس سے خریدا گیا ایک رافیل طیارہ 25 کروڑ ڈالرز مالیت کا بنتا ہے۔
حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان ایئر فورس نے 2019 میں بھی بھارتی ایئر فورس پر اپنی برتری ثابت کی تھی اور اب 2025 میں بھی اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ ان کا کہنا یے کہ یہ صرف بھارتی ایئر فورس کا نہیں بلکہ نریندر مودی کا سیاسی نقصان بھی ہے۔ اب وہ اس نقصان کا حساب برابر کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن یاد ریے کہ پاکستان نے پہل نہیں کی، اس نے صرف جوابی کارروائی کی ہے لہذا اگر بھارت نے دوبارہ پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو اسے پہلے سے زیادہ سخت جواب ملے گا۔ کئی عالمی رہنما پاکستان اوربھارت کو باقاعدہ جنگ سے گریز کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن پاکستان نے جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ آبی جارحیت کا آغاز بھی بھارت نے کیا اور میزائل حملوں کے ذریعے سول آبادی کو نشانہ بنانے کا آغاز بھی بھارت نے کیا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت جب چاہے حملہ کرے اور جب چاہے سیز فائر کرے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ سیز فائر کو سندھ طاس معاہدے کی بحالی سے مشروط کر دے۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان دراصل جنگ کا آغاز تھا۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ بھی یہ پہلو نظراندازنہ کرے کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے بعد بھارت نے پاکستان کے دریائوں کا پانی بند کرنے کا اعلان کیا۔ اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں کرتا تو پھر پاکستان شملہ معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرے۔ شملہ معاہدے نے 1948ء کی سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول میں تبدیل کیا تھا۔عالمی قوانین کے مطابق جب دو ممالک ایک دو طرفہ معاہدے میں لائن آف کنٹرول پر اتفاق کر لیتے ہیں تو پھر اس کا دفاع دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے لیکن اگر یہ لائن آف کنٹرول ختم ہو جائے تو پھر کشمیریوں کو آر پار آنے جانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ کشمیریوں نے اس لائن آف کنٹرول کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ماضی میں جے کے ایل ایف سمیت کئی تنظیمیں اس لائن آف کنٹرول کو توڑنے کا اعلان کر چکی ہیں اور پاکستان کو طاقت کے استعمال سے لائن آف کنٹرول کا دفاع کرنا پڑا۔ اگر شملہ معاہدہ معطل ہو جائے تو لائن آف کنٹرول بھی معطل ہوجائے گی۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس شملہ معاہدہ معطل کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے، بھارت نے 1984 میں سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرکے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ایک دفعہ پھر شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ سندھ طاس معاہدہ ختم کر کے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنائے گئے ڈیموں کے ذریعے پاکستان کی طرف آنے والا پانی بند کیا جسکے باعث مقبوضہ علاقوں میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہوا۔ بھارت کی آبی جارحیت نے صرف پاکستان کیلئے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کیلئے بھی خطرات پیدا کئے ہیں لہٰذا اس آبی جارحیت کو روکنے کیلئے شملہ معاہدے کی معطلی کا اعلان کوئی جارحیت نہیں بلکہ ایک دفاعی ردعمل کہلائے گا۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اکتوبر 1947ء میں بھارتی حکومت نے برطانیہ کی ملی بھگت سے سرینگر پر فوجی قبضہ کیا تھا جسکا نتیجہ ایک جنگ کی صورت میں نکلا۔ اس جنگ کو روکنے کیلئے پاکستان نہیں بلکہ بھارت نے اقوام متحدہ سے فریاد کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی اور استصواب رائے کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا۔ بھارت نے اس قرارداد پر عمل کرنے سے انکار کر دیا مسئلہ کشمیر پر 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی پھر 1971ء کی جنگ ہوئی پھر 1999ء میں کارگل کی جنگ ہوئی اور اب ایک بار پھر ایک باقاعدہ جنگ کا خطرہ موجود ہے جس میں بھارت جارح ہے اور پاکستان اپنا دفاع کر رہا ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے کارڈ درست انداز میں کھیلے اور قومی یکجہتی کو قائم رکھے تو اس مرتبہ کشمیریوں کیلئے بہت سا ریلیف لے سکتا ہے اور بھارت سے 1971 کی شکست کا بدلہ بھی لے سکتا ہے۔