بھارت کی جانب سے پاکستان پرپھینکے گئےڈرونزاسرائیلی نکلے

جدید دور میں جنگ کا چہرہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اب افواج صرف توپ، بندوق یا ٹینک پر انحصار نہیں کرتیں بلکہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والی فضائی گاڑیاں یعنی ’ڈرون‘ جنگی حکمت عملی کا مرکزی جزو بن چکی ہیں۔رات کی تاریکی میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان پر فضائی حملے کرنے کے بعد اب بھارت نے ایک بار پھر شرپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے طول وعرض میں اسرائیلی ساختہ ڈرونز کے ذریعے حملے شروع کر دئیے ہیں،فوجی ترجمان کے مطابق کے مطابق انڈیا کے جانب سے اسرائیلی کمپنی ہیروسپیس انڈسٹریز کے تیارہ کردہ ہیروپ نامی ڈرون میں کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، چکوال، راولپنڈی، اٹک، بہاولپور، میانو اور چھورکو نشانہ بنایا گیا ہے۔جبکہ پاکستان بھارت سے آنے والے 12 ڈرونز تباہ کر چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال شدت سے ہو رہا ہے۔ انڈین فوج، فضائیہ اور بحریہ اب مقامی اور غیر ملکی ساختہ جدید ڈرونز سے لیس ہیں جنہیں نگرانی، معلومات اکٹھا کرنے، اور بعض صورتوں میں مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
معلومات کے مطابق انڈیا کے سب سے نمایاں ڈرونز میں اسرائیل سے حاصل کردہ ’ہیروپ‘ اور ’سرچر‘ شامل ہیں جو طویل وقت تک فضاء میں رہ کر حساس مقامات کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ ان میں جدید سینسر نصب ہوتے ہیں جو دن یا رات، ہر وقت ہدف کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
بھارت کے پاس موجود اسرائیلی ساختہ ہیروپ‘ نامی ڈرون خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جو ایک خودکش فضائی ہتھیار ہے اور دشمن کے ریڈار یا کمانڈ و کنٹرول مراکز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ڈرون فضا میں کئی گھنٹے چکر لگاتا ہے اور جیسے ہی کسی مخصوص برقی سگنل کو شناخت کرتا ہے، خود کو اسی مقام پر گرا کر دھماکہ کر دیتا ہے۔ان کے علاوہ انڈیا مقامی سطح پر بھی رسٹم۔ سوئفٹ اور گھاتک جیسے جدید اور خفیہ خصوصیات سے لیس ڈرون تیار کر رہا ہے۔
ایئرفورس ٹیکنالوجیز نامی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیلی ساختہ ڈرون ہیروپ ایک خودکش قسم کا ڈرون ہے جو بم نہیں پھینکتا بلکہ خود جا کر ہدف سے ٹکراتا ہے۔ اس کی رینج ایک ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون پاکستان کے کسی بھی علاقے کو نشانہ بنا سکتا ہے۔اس ڈرون کی آپریشنل رینج 1,000 کلومیٹر اور فلائٹ ٹائم چھ گھنٹے تک ہو سکتا ہے۔دیگر ڈرونز کی طرح ہیروپ میں الگ سے دھماکہ خیز مواد نہیں ہوتا، بلکہ یہ خود ہی امیونیشن ہے۔ اس کا آپریٹر ہدف کی منظوری دے سکتا ہے یا حملہ روک بھی سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈرون سمندر، زمین یا فضائی پلیٹ فارمز سے لانچ کیا جا سکتا ہے اور افقی یا عمودی کسی بھی زاویے سے داغا جا سکتا ہے۔ اس کا سیل بند کنٹینر مشکل میدانِ جنگ کے حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ہیروپ 23 کلوگرام وزنی دھماکہ خیز مواد لے جاسکتا ہے۔ یہ خودکار طور پر دشمن کے متحرک اور ساکن اہداف کو تلاش اور تباہ کر سکتا ہے۔ یہ خاص طور پر دشمن کے میزائل ریڈار اور کمیونیکیشن سسٹمز کے سگنل پکڑ کر ان پر خود کو گرا دیتا ہے۔اس ڈرون کے اہداف میں تیز رفتار میزائل، ریڈار اور زمین و سمندر پر اہم اہداف شامل ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ’ڈرونز آج کی جنگ کا نیا چہرہ بن چکے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دشمن کی آنکھوں سے بچ کر اس کے اندرونی نظام کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تاہم انہیں مؤثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں بلکہ مربوط معلوماتی نظام اور اعلیٰ کمانڈ کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔‘
سٹریٹجک امور کے ماہرین کے بقول ’ڈرونز نے عسکری طاقت کے روایتی تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک کمزور ملک بھی اگر جدید ڈرونز حاصل کر لے تو وہ طاقتور فوجوں کو چیلنج دے سکتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ممالک کے پاس ڈرون حملوں کے خلاف دفاعی صلاحیت بھی موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈین ڈرونز اب تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے اور متعدد بار تباہ کیے جا چکے ہیں۔‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دشمن کی جانب سے بھیجے گئے ڈرون کو روکا جا سکتا ہے؟ماہرین کے مطابق اس سوال کا جواب جدید ’ڈرون شکن‘ ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے عموما ریڈیو فریکوئنسہ جامنگ تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں ڈرون کے مواصلاتی سگنلز کو روک کر اسے بے اثر کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ ’جی پی ایس اسموفنگ‘ کہلاتا ہے، جس کے ذریعے ڈرون کو غلط مقام کی معلومات دے کر اس کی سمت بھٹکائی جاتی ہے۔ اسی طرح بعض جدید نظام جیسے اسرائیل کا ’ڈرون ڈوم‘ یا برطانیہ کا ’سکائی وال‘ براہِ راست لیزر شعاعوں یا جال پھینکنے والے آلات سے ڈرونز کو گرا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ڈرون کی کمانڈ و کنٹرول لائن کو منقطع کیا جائے۔ جب یہ رابطہ ٹوٹتا ہے تو ڈرون یا تو زمین پر آ جاتا ہے یا خودکار نظام کے تحت اپنی اصل جگہ لوٹ جاتا ہے۔
پاکستان بھی دشمن ڈرونز کے خلاف دفاعی ٹیکنالوجی پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان آرمی اور فضائیہ نے حالیہ برسوں میں ڈرون شکن نظاموں کے ضمن میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔پاکستانی دفاعی ادارے شاہین تھری جیسے ریڈار نظام اور لیزر ٹیکنالوجی پر مشتمل ہتھیاروں پر تجربات کر رہے ہیں جو زمین سے دشمن کے چھوٹے ڈرونز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔پاکستان نے چین کے تعاون سے بھی بعض جدید نظام حاصل کیے ہیں جن میں ’سائلنٹ ہنٹر‘ جیسے لیزر ڈرون شکن نظام شامل ہیں جو کمرشل یا خودکش فضائی مشینوں کو فوری طور پر نشانہ بنا سکتے ہیں۔کراچی، گوادر اور دیگر حساس علاقوں میں ریڈیو جامنگ اور جی پی ایس سموفنگ جیسے نظام نصب کیے جا چکے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی فضائی دراندازی کو روکا جا سکے۔