انڈیا نے سینکڑوں کلومیٹر دور سے دینی مدارس کو نشانہ کیسے بنایا؟

بھارتی ایئر فورس کے لڑاکا جہازوں کی تباہی کے باوجود انڈین میڈیا دعوی کر رہا ہےکہ اس کی فضائیہ نے پاکستان میں اپنے اہداف کو سو فیصد درستی کے ساتھ نشانہ بنایا اور پاکستان کا اینٹی میزائل سسٹم بھارتی میزائل حملے روکنے میں ناکام رہا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں پاکستان اور انڈیا دونوں جدید ٹیکنالوجی کے تحت سینکڑوں کلومیٹر دور سے بھی اپنے اہداف کو درست نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس کوئی موئثر اینٹی میزائل سسٹم موجود نہیں ہے جو دشمن کے میزائلوں کو اپنی ہدف تک پہنچنے سے پہلے تباہ کر سکے۔
باخبر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس مقامی طور پر تیار کردہ مختلف قسم کے اینٹی میزائل سسٹمز موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس جدید ترین چینی ساختہ اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم ایچ کیو نائن بھی موجود ہے، جو بیک وقت کئی حملے روک سکتا ہے، لیکن عسکری ذرائع کے مطابق اینٹی میزائل سسٹم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ملک کے چپے چپے میں ہونے والا ہر میزائل حملہ روک سکتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں کئی سو کلو میٹر طویل سرحد ہو، بڑی مشکل یہ ہے کہ 100 فی صد مقامات پر اینٹی میزائل سسٹمز کی بیٹریز نہیں رکھی جا سکتیں۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہاں پر اگر کوئی اسرائیل کے اینٹی میزائل سسٹم کی مثال دے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ اسرائیل چھوٹا سا ملک ہے جس کا بارڈر زیادہ طویل نہیں، اس کے علاوہ اسرائیل کو تین اطراف سے تحفظ حاصل ہے، اسرائیل سمندر کی طرف سے مکمل طور پر محفوظ ہے، اس کی ایک سائڈ پر مصر ہے جو اس کا اتحادی ملک ہے جبکہ اردن سے بھی اسکے دوستانہ تعلقات ہیں۔ شام سے بھی اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لہذا اسرائیل صرف لبنان میں حزب اللہ یا یمن کے حوثیوں کی جانب سے پھینکے گے میزائلوں پر نظر رکھتا ہے۔ مختصر یہ کہ اسرائیل کو ایک محدود رقبے میں آنے والے میزائلوں کو روکنا ہوتا ہے جس کے لیے اس کے پاس دنیا کے جدید ترین اور مہنگے ترین اینٹی میزائل سسٹمز موجود ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے لیے بھی بھارت کی طرح سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اینٹی میزائل سسٹمز کو کافی محتاط ہو کر آن کرنا پڑتا ہے، ورنہ وہ اپنی رینج میں آنے والے ہر طیارے کو دیکھے بغیر ہٹ کر دے گا، خواہ وہ کوئی مسافر طیارہ ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستانی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستانی پر میزائل حملے کرتے ہوئے غیر ذمہ داری کی انتہا کر دی اور یہ خیال بھی نہ کیا کہ اس وقت کئی ممالک کی 50 سے زائد پروازیں پاکستانی ائیر سپیس استعمال کر رہی تھیں۔ یاد رہے کہ جب ائیر سپیس اوپن ہو تو اینٹی میزائل سسٹم آن نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے سے پہلے ایک اعلامیہ جاری کرنا پڑتا ہے جس کے بعد اس ائیر سپیس میں کوئی بھی مسافر طیارہ پرواز نہیں کر سکتا، اگر کوئی غلطی سے ایسا کرے گا تو میزائیل سے ہٹ ہو جائے گا۔ ویسے بھی کسی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے بین الاقوامی قانون اور فوجی ضابطوں کے مطابق پیشگی نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان نے بھارتی حملے کے بعد نوٹس دیا اور اپنی ائیر سپیس کو دوسروں کے لیے بند کر دیا۔
عسکری ذرائع کے مطابق تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے درمیانے دفاعی بجٹ رکھنے والے ممالک کے پاس اگر محدود سطح پر اینٹی میزائل نظام ہو بھی تو اسے صرف ان اہم ترین فوجی اور ملکی سلامتی سے متعلق تنصیبات کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جہاں حملے کا زیادہ خطرہ موجود ہو۔ ناقدین کی جانب سے ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ بھارت نے اتنی دیدہ دلیری سے حملے کیوں کیے، کیا اسے عالمی سطح پر تعاون کی یقین دہانی تھی؟ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اگر یہ ایئر سٹرائیک تھی تو ہمارا دفاعی نظام کیوں خاموش رہا، جبکہ 2019میں بالا کوٹ پر ہونے والے انڈین حملے اس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے تو پاکستانی جنگی جہاز فوری حرکت میں آ گے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بالا کوٹ حملے میں بھارتی طیاروں نے پاکستانی فضا میں آ کر کارروائی کی تھی، دراصل تب اس کے پاس نسبتاً پرانے طیارے یعنی مگ 29، میراج وغیرہ موجود تھے۔ اب بھارت کے پاس رافیل جیسا جدید ترین طیارہ موجود ہے جو 200 کلومیٹر سے زیادہ دوری سے فضا سے زمین پر مارکرنے والا کروز میزائل استعمال کر سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستانی سرزمین پر ہونے والے میزائل حملے رافیل طیاروں سے بھارتی سرزمین کے اندر رہتے ہوئے کیے گئے، اس مرتبہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوئے کیونکہ اگر وہ پاکستان میں گھستے تو پاکستانی فائٹر طیاروں کا نشانہ بن جاتے۔