پاکستان انڈیا کی جانب سے  چلائے گئے میزائیل کیوں نہیں روک پایا؟

بھارتی ایئر فورس کے پاکستانی سرزمین پر میزائیل حملوں کے بعد عوامی حلقے سوال کر رہے ہیں کہ کیا ہمارا فضائی دفاعی نظام انڈیا کی جانب سے آنے والے میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے پاس اینٹی میزائیل صلاحیت ہوتی تو بھارتی میزائل پاکستان میں اپنے اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیے جاتے۔

اس اہم ترین سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان فضائیہ کے سابق وائس ایئر مارشل اکرام اللہ بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کے فضائی دفاعی نظام میں بالکل یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ زمین سے زمین پر کم فاصلے، درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز اور بیلسٹک میزائلوں کو اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے اپنے دفاعی نظام میں چینی ساختہ ایچ کیو 16 ایف ای ڈیفنس سسٹم سمیت مختلف میزائل سسٹمز کو شامل کیا ہے جو اسے جدید ترین دفاعی میزائل نظام کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ ایچ کیو 16 ڈیفنس سسٹم زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں، کروز میزائلوں اور جنگی جہازوں کے خلاف کافی مؤثر نظام رکھتا ہے۔ تاہم اگر فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کو روکنے کی بات جائے تو ایسا دفاعی نظام پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس موجود نہیں ہے۔

سابق ایئر کموڈور عادل سلطان نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں فول پروف سیکورٹی فراہم کرنے والا ایسا کوئی دفاعی نظام نہیں بنا، خاص کر ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جس میں پاکستان اور انڈیا جیسے ہمسایہ ممالک ملوث ہوں جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، لہازا فضا سے زمین پر کیے جانے والے میزائل حملوں کو سو فیصد روکنا دونوں ممالک کے لیے یقیناً ناممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر دفاعی نظام کی صلاحیت کی ایک حد ہوتی ہے، اگر بیک وقت مختلف قسم کے کئی میزائل فضا میں مختلف سمتوں سے داغے جاتے ہیں تو وہ سوال یہ ہے کہ وہ سسٹم کس قسم کے میزائلوں کو روکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بالاکوٹ حملے کے بعد پاکستان نے اپنے دفاعی سسٹم میں کئہ جدید میزائل اور ریڈار نظام شامل کیے تاکہ اپنے ڈیفنس کو بہتر بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا اگرچہ یہ جدید دفاعی نظام بہت حد تک مؤثر ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ ڈھائی ہزار سے زائد کلومیٹر طویل مشرقی سرحد پر کوئی ایسا ایئر ڈیفنس سسٹم لگا پائیں جو سو فیصد یہ ممکن بنائے کہ کوئی میزائل اپ کی حدود میں داخل نہ ہو سکے۔

عادل سلطان کے مطابق ایسا کرنے کے لیے اربوں ڈالرز درکار ہوں گے لیکن اسکے باوجود ایسا سسٹم پاک بھارت سرحدوں کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے اتنا کارآمد نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے انڈیا کے پاس بھی ایسا کوئی اینٹی میزائل سسٹم موجود نہیں۔ دوسری جانب سابق وائس ایئر مارشل اکرام اللہ بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر ہم 6 مئی کے حملوں کی بات کریں تو ہمیں کچھ باتوں کو سمجھنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر انڈیا کی جانب سے یہ میزائل رافیل طیاروں کے ذریعے فضا سے زمین پر داغے گئے، لہٰذا اگر ہم فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی بات کریں تو یہ آج کل بہت ہی جدید ہو گئے ہیں۔ اُن کی رفتار بہت تیز تر ہو کر 3675 کلومیٹر فی گھنٹہ سے 11000 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اتنے تیز رفتار میزائل کو روکنے کی صلاحیت امریکہ، روس اور چین سمیت کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے۔

سابق ایئر وائس مارشل بھٹی کا کہنا تھا کہ فضا سے فائر کیے جانے والے میزائل کو روکنے میں ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ ان کا پرواز کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے اور آپ کے پاس ردعمل کرنے کا وقت بھی بہت محدود ہوتا ہے، اسکے برعکس زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کو روکا جا سکتا ہے کیونکہ اُن کی پرواز کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈیا کے پاس بھی یہ دفاعی صلاحیت نہیں کہ اگر پاکستان فضا سے زمین پر کوئی میزائل داغے تو وہ اسے روک پائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں مختلف مقامات پر بھارت کی جانب سے کیے جانے والے میزائل حملوں کی بات کریں تو کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، یعنی پاکستان کے پاس ردعمل کا وقت بہت محدود تھا اور یہ میزائل چند ہی لمحوں میں پاکستان میں آ گرے۔

سابق ایئر کموڈور عادل سلطان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی دفاعی نظام ایسا نہیں جو جغرافیائی طور پر ساتھ جڑے حریف ممالک کی حملوں کو سو فیصد تک روک سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاہم نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق ایسے نظام میں دفاع کے لیے حملے کی نوعیت بھی اہم ہے۔ اگر بیک وقت فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل مختلف اطراف سے فائر کیے جاتے ہیں تو ان کی ریڈار پر نشاندہی کرنا اور فوری ردعمل دینا کافی مشکل ہوتا ہے۔دوسری جانب اگر زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں یا کروز میزائلوں کی بات کی جائے تو ان کی ڈپلوائمنٹ deployment کا علم ہو جاتا ہے اور آپ ان کے فلائیٹ پاتھ یا کوریڈور کو کور کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ انڈیا کی جانب سے حملے میں 70 کے قریب طیاروں نے حصہ لیا تو ایسی بڑی کارروائی میں اگر آٹھ نو میزائل زمین پر آ گئے تو یہ جنگی صورتحال میں معمول کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورتحال میں کسی بھی ملک کے لیے اس کا فضائی دفاعی نظام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور دفاعی نظام میں میزائل شکن سسٹم کے ساتھ ساتھ دشمن کے جہازوں کو ٹریس اینڈ ٹریک کرنے والے ریڈار اور دیگر آلات بھی شامل ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب انڈیا کی جانب سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں ’آپریشن سندور‘ کے تحت کئی مقامات پر ‘دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر’ حملے کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔ رات ایک بج کر پانچ منٹ سے ڈیڑھ بجے تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران پاکستان اور آزاد کشمیر میں مساجد اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ انڈیا کی جانب سے یہ نہیں بتایا کہ گیا کہ ان حملوں میں کس قسم کے ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ انڈیا نے چھ مقامات پر مختلف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر 24 حملے کیے ہیں۔

Back to top button