اگلے 48گھنٹوں میں پاکستان کا بھارت پرجوابی حملوں کا امکان

پاک فوج نے بھارت کے بزدلانہ حملوں کا بھرپور جواب دینے کی تیاری مکمل کر لی ہے، حکام نے جوابی رد عمل میں بھارت کی شہری آبادی کی بجائے بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ دوسری جانب بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان، بھارت کی جانب سے 1971 کے بعد پہلی بار اپنے مختلف شہروں میں کئے جانے والے فضائی حملوں کا بھرپور جواب دے گا۔ پاکستانی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے فوج کو بھارتی دراندازی کا جواب دینے کیلئے مکمل اختیارات دئیے جانے کے بعد اگلے 24 سے 48گھنٹوں کے بعد پاکستان بھارت پر حملہ کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا نے کسی دہشتگردانہ کارروائی کا الزام لگا کرپاکستان کے خلاف عسکری کارروائی کی ہو۔سنہ 2016 میں اُڑی حملے میں 19 انڈین فوجی مارے گئے تو انڈیا نے لائن آف کنٹرول کے اُس پار ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کی تھیں۔اسی طرح سنہ 2019 میں پلوامہ حملے میں 40 انڈین نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے جس کے بعد انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملے کیے۔ تاہم حالیہ بھارتی حملہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ 1971 کے بعد پہلی بار انڈیا نے پاکستان کے اندر فضائی کارروائی کی۔ جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ماہرین کے مطابق انڈیا کی حالیہ کارروائی اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کیونکہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہے کیونکہ انڈیا نے بیک وقت پاکستان میں موجود تین بڑے شدت پسند گروہوں کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، اگرچہ پاکستان نے اس حوالے سے بھارت کے تمام دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نو شدت پسند اہداف پر حملے کیے جن میں لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے مراکز شامل ہیں۔

انڈیا کے ایک ترجمان کے مطابق بھارت نے سیالکوٹ میں سرحد سے صرف 6 سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دو تربیتی کیمپس کونشانہ بنایا ہے جبکہ پاکستان کے اندر زیادہ گھس کر کیا جانے والا حملہ بہاولپور میں جیشِ محمد کے ہیڈکوارٹر پر کیا گیا جو پاکستانی سرزمین کے اندر 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔بھارتی ترجمان نے مزید دعویٰ کیا کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں لشکرِ طیبہ کے ایک کیمپ کو بھی نشانہ بنایا جو لائن آف کنٹرول سے 30 کلومیٹر دور ہے ۔تاہم دوسری جانب پاکستانی حکام کا ان علاقوں میں شدت پسندوں کے کیمپس کی موجودگی کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بھارت نے رات کی تاریکی میں سول آبادی اور مساجد کو نشانہ بنایا۔ بھارتی حملوں میں جاں بحق ہونے والوں میں بچوں اور خواتین سمیت عام شہری شامل ہیں۔ان علاقوں میں شدت پسندوں کا کوئی کیمپ موجود نہیں تھا

دوسری جانب دہلی سے تعلق رکھنے والے مؤرخ سریناتھ راگھون کے مطابق بھارت کے حالیہ فضائی حملوں کی نمایاں بات یہ ہے کہ انڈیا نے اس بار اپنے اہداف کا دائرہ پچھلے حملوں سے بہت وسیع کر دیا ہے۔ ماضی میں بالاکوٹ جیسے حملے صرف لائن آف کنٹرول کے پار، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر تک محدود ہوتے تھے ’مگر اس بار انڈیا نے بین الاقوامی سرحد کے پار جا کر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کارروائی کی ہے، خاص طور پر بہاولپور اور مریدکے میں لشکرِ طیبہ سے وابستہ مراکز، ہیڈکوارٹرز اور شدت پسند انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی جیشِ محمد اور حزب المجاہدین کے اثاثے بھی نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا کا ردعمل اس بار جغرافیائی لحاظ سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور یہ ایک بڑا پیغام دے رہا ہے کہ اب کئی گروہ انڈیا کے نشانے پر ہیں۔‘

تاہم بھارت کی حالیہ کارروائی کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے مابین کشیدہ صورتحال مکمل جنگ کی طرف جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی جانب سےجلد یا بدیر جوابی کارروائی ضرور کی جائے گی۔انڈیا کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریا کا کہنا ہے: ’پاکستان کا ردعمل ضرور آئے گا۔ اصل چیلنج یہ ہو گا کہ اس کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کیسے سنبھالا جائے۔ یہی وہ وقت ہو گا جب بحران سے بچانے والی سفارتکاری اہم کردار ادا کرے گی۔تاکہ دونوں ممالک کسی بڑے فوجی تصادم کی طرف نہ بڑھیں۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مریدکے اور بہاولپور جیسے مقامات پر سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ’پاکستانی فوج کے بیانات اور اس کے ’حساب چکانے‘ کے عزم کو دیکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پار جوابی حملے ممکنہ طور پر اگلے چند دنوں میں کیے جا سکتے ہیں۔‘ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ دونوں جانب سے ایسے محدود حملے ’ایک محدود روایتی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا کی جانب سے حملوں کی وسعت اور پاکستان میں کئی ٹھکانوں پر واضح جانی و مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے پاکستان کا ردعمل ’انتہائی متوقع‘ ہے کیونکہ اگر فضائی حملوں کے بعد پاکستان کوئی ردعمل نہیں دیتا تو یہ انڈیا کو کھلی اجازت دینے کے مترادف ہو گا کہ وہ جب چاہے کارروائی اور حملہ کرے۔ موجودہ صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستان بھارت کو جواب ضرور دے گا تاہم پاکستان اپنا ردعمل صرف انڈیا کی فوجی تنصیبات تک محدود رکھے گا۔‘تاہم بعض دیگر ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے مابین کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ اب بھی بہت زیادہ ہے اور یہ بحران 2002 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سب سے خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے۔۔۔ صورتحال 2016 اور 2019 کے مقابلے میں کہیں زیادہ نازک ہو چکی ہے۔ اگرچہ انڈیا کے حملے سے قبل کوئی جنگی جنون نظر نہیں آ رہا تھا مگر انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں فضائی حملوں کے بعد حالات بدل چکے ہیں۔ اب پاکستان کی جوابی کارروائی اس بات کا تعین کرے گی کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات مزید کتنے کشیدہ اور غیر مستحکم ہو سکتے ہیں۔

Back to top button