صدر ٹرمپ نے طالبان بارے پاکستانی موقف کی حمایت کیسے کی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے وقت چھوڑا گیا اتحادی افواج کا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس واپس لینے کا اعلان کر کے دراصل پاکستانی موقف کی حمایت کر دی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی حکام بھی بار بار یہی مطالبہ کر رہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد وہاں رہ جانے والے ہتھیاروں کو نہ صرف افغان طالبان بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو بھی پاکستان کے خلاف حملوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ ان حملوں کا زیادہ تر استعمال پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر سرحد پار افغانستان سے ہونے والے حملوں میں کیا جاتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ اتحادی افواج کے ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا فوجی ساز و سامان نہ صرف ملکی سلامتی بلکہ خطے کے استحکام کے لیے بھی خطرہ بن رہا ہے۔
اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان سے امریکی انخلا کے طریقہ کار کو ناقص قرار دیتے ہوئے اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان چھوڑنے کا ذمہ دار جو بائیڈن انتظامیہ کو قرار دیدیا یے۔ دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بھی صدر ٹرمپ کے موقف کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں چھوڑے گئے جدید امریکی ہتھیار طالبان دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اور امریکہ کو یہ سلسلہ روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات کرنے چاہیے۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی یہ کہنا ہے امریکا کا افغانستان کو اربوں ڈالر دینا ان کے لیے باعث فکر ہے، انکا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا میں اربوں ڈالر کا اسلحہ اور فوجی سامان وہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہون نے بتایا کہ ہم نے 70 ہزار گاڑیاں پیچھے چھوڑ دیں، افغان طالبان پیچھے چھوڑے گئے اسلحے بشمول 7 لاکھ 77 ہزار رائفلیں، 70 ہزار بکتربند ٹرک اور گاڑیاں بیچ کر پیسے بنا رہے ہیں، لہازا ہم چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لیں گے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کو بگرام ائیربیس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تھا، بگرام انتہائی اہم ائیر بیس ہے، یہ ائیر بیس چین پر نظر رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے، ہم بگرام ائیر بیس بھی افغان طالبان سے واپس لیں گے۔
نئے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے مستقبل کی امداد امریکی فوج کے انخلا کے وقت پیچھے رہ جانے والے 7 ارب ڈالرز مالیت کے اسلحے کی واپسی سے مشروط کیے جانے کو پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر خیال کیا جا رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کے ہاتھ لگنے والا یہ اسلحہ اب تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افواج پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان حکومت کے ڈپٹی ترجمان حمد اللہ فطرت نے حال ہی میں یہ موقف دیا ہے تھا کہ افغانستان میں تمام ہتھیار محفوظ ہیں اور کسی کو بھی انکے غلط استعمال کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ تاہم طالبان حکومت کا دعوی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکی قانون سازوں کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے نتیجے میں طالبان حکومت کے ہاتھ سات ارب ڈالرز مالیت کا امریکی فوجی سازوسامان لگا تھا۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان سے پہلے پاکستان مسلسل افغان طالبان سے یہ تقاضا کرتا رہا ہے کہ ان امریکی ہتھیاروں کو ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔
سیاسی مبصرین موجودہ حالات میں افغان طالبان پر سخت امریکی پالیسی کو سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے امید کی ایک نئی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ امریکی صدر کے طالبان مخالف سخت مؤقف سے پاکستان کو بظاہر فائدہ ہو سکتا ہے۔ انکے مطابق اسلام آباد سمجھتا ہے کہ اگر امریکہ افغان طالبان پر دباؤ بڑھاتا ہے تو اس سے پاکستان کو ٹی ٹی پی سے متعلق معاملات حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھی اپنے دورۂ امریکہ کے دوران کہا تھا کہ ان کا ایک مقصد امریکی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے کیوں کہ یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی مشترکہ لڑائی ہے۔ سہیل وڑائچ کے بقول اگرچہ ٹی ٹی پی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اس کے القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اس لیے مستقبل میں ٹی ٹی پی کا ایجنڈا عالمی برادری کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے گزشتہ برس جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے ملک بھر میں 1758 حملے کیے تھے جن میں زیادہ تر کارروائیاں سیکیورٹی فورسز کے خلاف تھیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ حکومت کو اقتدار سنبھالے چند ہی ہفتے ہوئے ہیں لیکن افغانستان کے لیے ان کی پالیسی جارحانہ لگتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کے ساتھ کسی حد تک رابطے میں ہے۔ تاہم واشنگٹن کبھی طالبان حکومت کو کھلی چھوٹ نہیں دے گا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدہ طے پایا تھا جس کی بنیاد پر افغانستان سے امریکی انخلا ممکن ہوا تھا۔صدر ٹرمپ اب دوبارہ اقتدار میں ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور طالبان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
سینیئر صحافی اور سیکیورٹی امور کے ماہر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اسلام آباد کے لیے مسلسل تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں اور پاکستان توقع کر رہا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو۔ انکے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ جب تک افغانستان اور خطے میں ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو نہ صرف عام شہریوں بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی ممکنہ خطرہ بن سکتے ہیں، تب تک پاکستان کی اس خطے میں اہمیت برقرار رہے گی۔
تجزیہ کار کامران یوسف کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف امریکی مؤقف کو اپنانے سے قبل پاکستان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ افغان طالبان کے موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مزید آگے بڑھ سکتا ہے یا نہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی موجودہ پالیسی کا محور ٹی ٹی پی ہے اور جب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا اسلام آباد اور کابل کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب طالبان حکومت کو عالمی سطح پر کوئی تسلیم نہیں کر رہا، پاکستان کا طالبان مخالف امریکی لائن کو اپنانا کابل کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔