آرمی چیف نے یوتھیےججزکے خواب خاک میں کیسے ملائے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ سیاہ پوش منصفوں کو حالیہ آئینی ترامیم کے بعد یقینا احساس ہو گیا ہو گا کہ جس طاقتور شخص کی چھنگلی کے اشارے سے 6 لاکھ مسلح جوان پل بھر میں اِدھر سے اُدھر ہو جائیں، اس کی بادشاہت کو چیلنج کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس بار بھی وہی ہوا جو طاقت کے کھیل میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ جیت پھر طاقتور کی ہی ہوئی اور غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار سیاہ پوس منصفوں کو دھول چاٹنا پڑ گئی۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سیاہ پوش منصف کسی مغالطے کا شکار ہو کر وہ طاقت استعمال کرنے کی کوشش میں تھے جو بادشاہ نے انہیں ادھار دی تھی، چنانچہ ادھار دیا گیا اختیار ان سے واپس لے لیا گیا ہے۔ ہمارا بادشاہ تو پہلے ہی بہت طاقتور تھا اور اسکی پرانی پوشاک بھی اختیارات سے مزین تھی، لیکن کچھ سیاہ پوش منصفوں کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ وہ شہرت کے گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے منصوبے ناکام بنا دینگے اور اختیار چھین لیں گے، منصف یقینا اس خام خیالی کا شکار ہو گے تھے کہ وہ پچھلے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیکر خود بادشاہ بن جائیں گے۔ مگر وہ سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کا یہ قول بھول گئے کہ جس فرد کی چھنگلی کے اشارے سے 6 لاکھ جوان پلک جھپکتے میں اِدھر سے اُدھر ہو جائیں، اس کی بادشاہت کو چیلنج کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن یے۔

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ جب بادشاہ نے ماسٹر سٹروک کھیلا تو سیاہ پوش منصف کہیں کے نہ رہے، انہیں نہ تو عہدے مل سکے اور نہ ہی کوئی اختیار ان کے پاس رہا، نہ تو انکے حکومت بدلنے کے خواب پورے ہو سکے اور نہ ہی وہ قوم یوتھ کے ہیرو بن سکے۔ سیاہ پوش منصف نام کے تو شاہ تھے مگر طاقت کے کھیل میں پیادے جیسی حکمت عملی بھی نہ دکھا سکے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ طاقتور بادشاہ اختیارات کے نئے کپڑے پہن چکا ہے، پہلے اسے کبھی عدلیہ، کبھی اپنے گھر اور کبھی کپتان سے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب اس کی بنائی ہوئی عمارت کو توڑنا چاہتے ہیں، مگر اپنا ماسٹر سٹروک کھیل کر اس نے سب کو شکست دے ڈالی ہے۔ وہ توسیع اور توثیق کے چکروں سے نکل کر طاقت کے سنگھاسن پر پوری قوت سے براجمان ہو چکا ہے۔

اختیار آ جائے تو ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں،تجزیہ کار

سہیل وڑائچ کے بقول، کہتے ہیں کہ جب طاقت اور اختیار آ جائے تو ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، آج سے بادشاہ کا نیا دور شروع ہے، سب سے بڑا سٹیک ہولڈر وہ خود ہے، یا اس کے چند ساتھی۔ چنانچہ اب اسے ریاست کی ساری منصوبہ بندی کرنی پڑے گی، اگر بادشاہ سیاست سے تائب رہا اور اس نے اپنے پرانے مہروں کے ساتھ ہی کھیلنے پر اصرار کیا تو کوئی یہ اواز بھی لگا سکتا ہے کہ بادشاہ تو ننگا ہے۔ اب پاکستان کی خرابیوں اور خوبیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار وہ ہے، ناکامیوں کے ذمہ دار نونی یا پپلے نہیں بلکہ وہ ہی قرار دیا جائے گا۔ نونیوں اور پپلوں نے تو تمام تر اختیارات کی سنہری تاروں والی پوشاک بادشاہ کو پہنا کر اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں، لہازا اب جو کرنا ہے، بادشاہ نے ہی کرنا ہے۔

بادشاہ کا پہلا اور بڑا چیلنج سکیورٹی کا ہے،لکھاری

سہیل وڑائچ کے بقول بادشاہ کا پہلا اور بڑا چیلنج سکیورٹی کا ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں ہر روز کے انسانی نقصانات بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ بادشاہ کو نئے سرے سے اس معاملے پر سوچنا ہو گا۔ 75سال کی بلوچستان جنگ میں مسلسل فوجی آپریشن حالات کو خراب سے خراب تر کر رہے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے خطرات بڑھ رہے ہیں، ہماری طالبان سے نہ دوستی کام آ رہی ہے اور نہ ہماری دھمکیاں۔ بادشاہ کو نئے کپڑے پہننے کے بعد اس حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہو گا۔ اسے سیاسی عدم استحکام کا حل ڈھونڈنا یے اور قیدی نمبر 804 کا مستقبل بھی طے کرنا ہے۔ اگر اڈیالہ جیل کا قیدی اپنی جماعت کو ایک قومی حکومت میں شامل کرنے پر تیار ہو جائے تو ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اگر اڈیالہ کا قیدی نظام کو توڑ کر غالب آنے کی خواہش چھوڑدے اور کمزور پارٹنر کے طور پر نئے نظام کو مان لے تو اس سے اب بھی مصالحت سکتی ہے۔

ایک ہی خواہش ہے سیاسی استحکام آئے،تجزیہ کار

سہیل وڑائچ کے بقول طاقتور بادشاہ کی صرف اور صرف ایک ہی خواہش ہے کہ سیاسی استحکام آئے اور پاکستان آگے کی جانب چلے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت دو سال کیلئے خاموشی اپنانے اور قومی حکومت میں شمولیت کے لیے مان جائے تو آج ہی ملکی صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اب بادشاہ کی نئی سیاست بھی شروع ہو چکی ہے، آفے چل کر وہ سیاست کے نئے مہروں کیساتھ کھیلے گا۔ پہلے اسے نون اور پی پی کی بیساکھیوں کی ضرورت تھی، ان کی سیاسی حمایت سے اسے اپنے لیے قانونی اور اخلاقی جواز چاہئے تھا جو اسے مل چکا ہے، بلکہ ضرورت سے زیادہ مل چکا ہے۔ اب بادشاہ کو کسی کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں رہی، لاٹھی اب اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جس سے وہ سیاسی نظام کو ہانکا کرے گا اور اپنے پسندیدہ اور نئے چہرے لائے گا۔ ایسے میں ایک نیا سیاسی گروہ جنم لے گا جو ڈیلیور کرے تا کہ بادشاہ کی پوشاک کارکردگی اور بیانیے سے مزین نظر آئے گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا دوسرا بڑا چیلنج پاکستانی معیشت کی بحالی اور بہتری ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب ابھی تک ادھورا دکھائی دیتا یے، چین کو سکیورٹی خدشات نے پریشان کر رکھا ہے۔ خلیجی ممالک وعدے تو کرتے ہیں لیکن ان پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ امریکہ سے پہلے بھی کوئی امید نہیں تھی اور ٹرمپ کے انے کے بعد تو بالکل بھی نہیں رہی۔ لہٰذا کچھ نئی حکمت عملی اپنانی پڑے گی۔ ایک بات واضح ہے کہ نئی پوشاک پہننے والے بادشاہ کی اصل کامیابی کا انحصار پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام پر ہے، ایسے میں کارکردگی دکھانے اور مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے اسے خود میدان میں اترنا ہو گا، وگرنہ کل کو گلی کا کوئی معصوم اور گستاخ بچہ یہ کہہ سکتا ہے کہ بادشاہ تو ننگا ہے!!!

Back to top button