اسلام آباد ہائی کورٹ کے عمرانڈو ججز کی واردات کیسے ناکام ہوئی؟

جسٹس عامر فاروق نے بروقت مداخلت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جہاں سر اٹھاتی بغاوت کو کچل دیا ہے وہیں ملک کو ایک اور آئینی بحران سے بچا لیا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمرانڈو ججز کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے وفاقی عدالت عالیہ کا سینئر پیونی جج مقرر کر دیا ہے۔ جس کے بعد عمرانڈو ججز کا سازشی بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا ہے دوسری جانب پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے تین ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر پر وکلاء تنظیموں میں بھی اختلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ہڑتال کی کال دے رکھی ہے وہیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، بلوچستان ہائیکورٹ بار اور سندھ ہائیکورٹ بار نے اس حکومتی فیصلے کو خوش آئند اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے وکلاء کی ہڑتال کو بلاجواز قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی کو ایک خط لکھا تھاکئی صفحات پر مبنی اس خط میں ٹیپ کا بند یہ تھا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے چیف جسٹس کا انتخاب موجودہ ججز ہی میں سے کیا جائے، اور اس کے لیے کسی بھی صوبے کی ہائیکورٹس کے جج کی خدمات نہ لی جائیں‘۔

مبصرین کے مطابق اس خط میں عمراندار ججز کی جانب سے کیے گئے مطالبے سے بھی زیادہ اہم بلکہ خطرناک بات یہ تھی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلیٰ ترین ججز جنہوں نے نہ صرف آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، بلکہ وہ خود قانون کے پاسدار بھی ہیں، ان کی جانب سے دھڑے بندی بلکہ یونین سازی کی فضا پیدا کی گئی تھی تاہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے ٹرانسفر ہونے والے ججز کا روسٹر جاری کروا کر اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹس کے ان ججز کا طریقہ واردات نہ صرف ملکی قانون کے خلاف ہے بلکہ ججز کا یہ عمل اس اخلاقی ضابطے سے بھی انحراف ہے ، جس پرکاربند رہنے کا انہوں نے حلف اٹھارکھا ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ صوبائی ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ صدر پاکستان یا کسی اور کی ذاتی خواہش سے بالاتر ایک سراسر آئینی اور قانونی اقدام ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق صدر پاکستان اس طرح کے تبادلے چیف جسٹس آف پاکستان، متعلقہ ججز اور صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ مشاورت سے کر سکتے ہیں۔اس طرح کے فیصلوں میں متعلقہ ہائیکورٹس کے دونوں چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے پر پاکستان کے 5 چیف جسٹسز کا اتفاق ہے۔ جس کے بعد ہی یہ تبادلے عمل میں لائے گئے ہیں۔

 مبصرین کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ یہ تبادلے زبردستی نہیں کئے گئے بلکہ اس میں تبادلہ پانے والے ججز کی رضامندی بھی شامل ہے۔چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کی علامت ہے، لہٰذا دیگر صوبوں سے ایسی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

مبصرین کے مطابق ججز کا دیگر صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، اس لیے کہ لاہور ہائیکورٹ میں خدمات انجام دینے والے جسٹس سردار محمد اسلم کو فروری 2008 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر کے اس کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ جسٹس ایم بلال خان لاہور ہائیکورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے، 2009 میں ان کا تبادلہ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا اور انہوں نے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

پھر جسٹس اقبال حمید الرحمان بھی لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوئے، انہیں 18ویں ترمیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔

ناقدین کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے منتخب ججز کا خط ضابطہ اخلاق کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ذاتی مفاد یا فائدہ ان کے رویے پر کبھی اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق آئین کے آرٹیکل 1 کے مطابق پاکستان ایک فیڈریشن ہے، جس کی صوبائی اکائیاں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مشتمل ہیں۔ تمام صوبوں میں عدالتی نظام کی نگرانی کے لیے ہائی کورٹس قائم ہیں، جو خودمختار حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلام آباد، بطور دارالحکومت، وفاق کی علامت ہے، جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے۔ لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام صوبوں سے ججز کی شمولیت ضروری ہے۔ اس لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیگر صوبوں کے ججز کی تعیناتی پر اعتراض نامناسب ہے۔اس تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے، ججز کی تقرری اور تبادلے سے متعلق صدر کا اختیار نہ صرف آئینی طور پر جائز ہے بلکہ یہ وفاق کے استحکام کے لیے بھی سودمند ثابت ہوگا۔ ویسھ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ 12 ججز پر مشتمل ہو گی، جو کے صوبوں اور پاکستان کے تمام علاقوں سے آئین کے مطابق لائے جا سکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق تین ججز کا اسلام آبادہائیکورٹ میں تبادلہ کوئی انہونی صورت حال نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ججز دوسری ہائیکورٹس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ چند ججز اپنی کرسی کی خواہش میں ایک آئینی عمل پہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ ان ججز نے اسی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی واپس لی ہے۔ اب پاکستان میں وہ نظام نہیں رہا کہ چند ججز کا گروپ بیٹھ کے فیصلے کرتا تھا کہ اگلے 10-20 سال تک چیف جسٹس کون بنے گا۔

Back to top button